تاریخی فیصلہ

254
zc_Jilani
بلا شبہ میاں نواز شریف کو نااہل قرار دینے کے بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ تاریخی فیصلہ ہے۔ تاریخی اس اعتبار سے کہ قیام پاکستان کے بعد پچھلے ستر سال کے دوران پہلی بار ایک منتخب وزیر اعظم کو سپریم کورٹ کے پانچ ججوں پر مشتمل بینچ نے مکمل اتفاق رائے سے نااہل قرار دیا ہے۔ تاریخی اس لحاظ سے کہ اتنے اہم مقدمہ میں سپریم کورٹ نے پہلی بار مکمل اتفاق رائے سے یہ فیصلہ دیا ہے۔ اب تک جتنے بھی اہم مقدمات میں فیصلے دیے گئے ہیں وہ اتفاق رائے کے بجائے منقسم اور اختلافی رہے ہیں، بشمول مولوی تمیز الدین خان مقدمے کے جس میں انہوں نے دستور ساز اسمبلی کو توڑنے کے بارے میں گورنر جنرل غلام محمد کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ بھی سپریم کورٹ میں منقسم تھا۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ اس لحاظ سے بھی تاریخی ہے کہ میاں نواز شریف کو نااہل تو قرار دیا گیا ہے لیکن اس کی وضاحت نہیں کی گئی کہ انہیں کتنی مدت کے لیے نااہل قرار دیا گیا ہے ، عمر بھر کے لیے یا پھر کسی خاص مدت تک کے لیے، یہ ابہام اب تک سپریم کورٹ کے کسی فیصلہ میں نہیں دیکھا گیا۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس انور ظہیرجمالی نے ثمینہ خاور کی نااہلی کے مقدمہ میں یہ رائے ظاہر کی تھی کہ کسی کو آئین کی شق 62/63کے تحت عمر بھر کے لیے نااہل قرار نہیں دیا جاسکتا کیوں کہ اس کا امکان ہے کہ نااہل قرار دیا جانے والا فرد آیندہ اپنی اصلاح کر لے ۔
میاں نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ اس اعتبار سے بھی تاریخی ہے کہ یہ فیصلہ سپریم کورٹ کی اس بینچ نے نہیں دیا جو جے آئی ٹی کی رپورٹ پر غور کرنے اور اس کے مطابق عمل درآمد کرنے کے لیے تشکیل دی گئی تھی بلکہ اچانک فیصلے والے دن، پانچ ججوں کا بینچ تشکیل دیا گیا، جس نے بڑی عجلت میں سماعت کر کے میاں نواز شریف کی نااہلی کا حکم صادر کیا۔ یہ بھی تاریخی عمل ہے کہ اتنے اہم مقدمے میں جس میں منتخب وزیر اعظم کے مستقبل کا فیصلہ ہونے والا ہو، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے اس بینچ کی سربراہی نہیں کی اور نہ اس میں شامل ہوئے۔
یہ فیصلہ اس اعتبار سے بھی تاریخی ہے کہ نواز شریف کے خلاف اصل الزام تو پاناما کیس میں کرپشن کا تھا لیکن انہیں نا اہل، اس بنا پر قرار دیا گیا کہ انہوں نے 2013کے انتخابات میں الیکشن کمیشن کے سامنے اپنے اثاثوں میں وہ تنخواہ درج نہیں کی جو دبئی میں ان کے بیٹے کی کمپنی کیپیٹل ایف زیڈ ای کے چیئرمین کی حیثیت سے ان کی متعین کی گئی تھی لیکن جو انہوں نے وصول نہیں کی، لہٰذا وہ صادق اور امین نہیں رہے اور وزیر اعظم کے عہدہ کے اہل نہیں۔ واقعی یہ فیصلہ اس لحاظ سے تاریخی ہے کہ پاناما کے اصل مقدمے میں میاں نواز شریف پر الزام کچھ اور تھا اور ان کو مجرم کسی اور الزام کی بنا پر قرار دیا گیا، اور وہ بھی اس تنخواہ کو ان کا اثاثہ قرار دیا گیا جو انہوں نے وصول ہی نہیں کی۔
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اس بنا پر بھی تاریخی ہے کہ یہ پہلا فیصلہ ہے جو عدالت میں مقدمہ چلائے بغیر، صرف عدالت کی طرف سے مقرر کردہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر دیا گیا ہے اور پھر میاں نواز شریف کو ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے ان کے خلاف الزامات کے تحت مقدمات کا عمل مکمل ہوئے بغیر نااہل قرار دینے کا فیصلہ کر کے انہیں اپیل کے حق سے محروم کر دیا ہے کیوں کہ اس سے اعلیٰ کوئی عدالت نہیں۔ یہ بہت سے قانون دانوں کی نظر میں انصاف پر مبنی نہیں۔ یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ سابق وزیر اعظم کو سپریم کورٹ میں ریویو کا حق ہے۔ لیکن یہ ریویو وہی بینچ سنے گی جس نے انہیں نا اہل قرار دیا ہے۔ ویسے بھی ریویو کے تحت فیصلہ میں تبدیلی کے امکانات بے حد محدود ہوتے ہیں۔
یہ بھی فیصلہ اس لحاظ سے تاریخی ہے کہ سپریم کورٹ نے میاں نواز شریف کو مجرم قرار دینے کے بعد ان کے خلاف احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ بھی تاریخی فیصلہ ہے کہ سپریم کورٹ کا ایک جج، اس ریفرنس کی نگرانی کرے گا۔ ایسی کوئی روایت اس سے پہلے نظر نہیں آتی کہ سپریم کورٹ کے کسی جج نے کسی کے خلاف ریفرنس کی نگرانی کی ہو۔
آخر میں یہ فیصلہ اس لحاظ سے بھی تاریخی اہمیت کا حامل ہے کہ اس فیصلے نے پاکستان کی تاریخ کی عجیب و غریب روایت کے تسلسل پر مہر ثبت کر دی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک پچھلے ستر سال کے دوران ملک کا کوئی وزیر اعظم اپنی میعاد پوری نہیں کر سکا ہے۔ یہ سلسلہ پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان سے شروع ہوا جنہیں راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد فوجی طالع آزماوں نے وزراء اعظم کی بر خاستگی اور برطرفی کا سلسلہ جاری رکھا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ عدلیہ نے اس میدان میں اپنا اختیار استعمال کیا ہے۔
جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق نے صحیح کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ادھورا رہے گا اگر کرپشن کے خلاف سب کا احتساب نہیں ہوتا۔ کرپشن میں ملوث تمام سیاست دانوں کے ساتھ جیسے کہ جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ ملک کو کرپشن سے اس وقت تک نجات نہیں مل سکتی جب تک کہ فوج کے جرنیلوں اور عدلیہ کے ججوں کا احتساب نہیں ہوتا۔ کرپشن کے خلاف ہمہ گیر مہم کے لیے ملک کی سیاسی جماعتوں کے موجودہ موروثی اور جاگیرداری نظام میں اصلاح بھی لازم ہے کیوں کہ موجودہ نظام میں تبدیلی کے بغیر کوئی صادق اور امین سیاسی کارکن جماعت کی اعلیٰ قیادت کا زینہ نہیں چڑھ سکتا۔ اسی کے ساتھ ایک آزاد الیکشن کمیشن کا قیام بھی لازمی ہے۔ پڑوسی ملک ہندوستان اور ایران سے لے کر برطانیہ تک، آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن ہی منصفانہ اور آزادانہ انتخابات کے ضامن ہیں۔ اگر ان ملکوں میں آزاد الیکشن کمیشن قائم ہوسکتے ہیں تو پاکستان کی سر زمین نے کیا خطا کی ہے کہ یہاں سیاسی جماعتوں کے اشاروں پر کھیلنے والے الیکشن کمیشن سے نجات نہیں مل سکتی۔ ہاں یقیناًسپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اس صورت میں واقعی تاریخی ہوگا اگر کرپشن کے خاتمے اور سیاسی جماعتوں کے نظام اور آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے لیے اصلاحات کا آغاز ہو۔ آخر میں یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرف دار نہیں۔ مقصد میاں نواز شریف کی حمایت کرنا نہیں محض انصاف اور قانون کے نقطہ نگاہ سے جو سوالات پیدا ہوئے ہیں ان کو پیش کرنا ہے۔