سیاسی مداخلت اور غیر محتاط زبان

198
Edarti LOH
میاں نوا زشریف کی نا اہلی کے فیصلے کے بعد سامنے آنے والے رد عمل کے حوالے سے اعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوٹتا نظر آ رہا ہے ۔ ایک جانب مسلم لیگ کے اور میاں نواز شریف کے حامی عدلیہ اور اداروں کے خلاف بول رہے ہیں ایک دن گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ اور آزاد کشمیر کے وزیر اعظم غداری کے الزامات اور قومی کشمیر پالیسی سے انحراف کی دھمکیاں دے رہے تھے تو دوسری طرف عمران خان پریڈ گراؤنڈ میں جلسۂ عام سے خطاب میں جس قسم کی زبان استعمال کر رہے تھے وہ بھی عجیب و غریب تھی یا وہی زبان تھی جو وہ دھرنوں کے زمانے میں استعمال کر رہے تھے ۔ معلوم نہیں ان کو بڑا مجمع دیکھ کر ایسا انداز اختیار کرنے کا خیال آتا ہے یا پھر وہ حقیقتاً بے قابو ہو جاتے ہیں ۔ چند جملے ملاحظہ فرمائیں ۔ زرداری تمہیں نہیں چھوڑوں گا ، شہباز و عباسی تمہارے پیچھے آ رہا ہوں وزیر اعظم آزاد کشمیر ،گھٹیا ۔ ذلیل شرم نہیں آتی ۔ مولانا فضل الرحمن کو بھی نہیں چھوڑیں گے ۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ یہودی سازش کا الزام لگا کر جمائما کو پریشان کیا گیا ۔ یہ بات درست ہے کہ سابق صدر آصف زرداری صاحب کرپشن کے بے تاج اور بے داغ بادشاہ ہیں لیکن تمہیں نہیں چھوڑوں گا یہ جملے جلسۂ عام میں کہنے والے نہیں خصوصاً جہاں معزز خواتین کو بھی بلایا گیا ہو ۔۔۔ خان صاحب بڑے شوق سے شہباز شریف اور شاہد خاقان عباسی کا پیچھا کریں لیکن جلسۂ عام میں اس قسم کی زبان استعمال نہ کی جائے تو اچھا ہے ۔ اس سے بڑھ کر وزیر اعظم آزاد کشمیر کے بارے میں گھٹیا اور ذلیل کہنے کی ضرورت نہیں تھی ۔ ان کے بیان اور دھمکی کو پوری پاکستانی قوم نے اسی طرح سمجھا ہے جیسا کہ عمران خان کہہ رہے تھے لیکن یہ الفاظ بھی قابل گرفت ہیں ۔ا گرچہ وزیر اعظم آزاد کشمیر کا بیان گھٹیا اور ذلت آمیز ہی تھا لیکن ایک بڑی پارٹی کے سربراہ کو اس طرح جلسۂ عام میں یہ باتیں زیب نہیں دیتیں ۔ خصوصاً اس وقت جبکہ جلسۂ عام میں خواتین تھیں اور پورے ملک اور دنیا بھر میں ٹی وی چینلز ان کا خطاب براہِ راست دکھا رہے تھے ۔ صرف دو دن کے دوران ملک کے دو تین اہم سیاستدانوں اور رہنماؤں نے نہایت غیر محتاط زبان استعمال کی ہے جس طرح عمران خان کی زبان ٹھیک نہیں اسی طرح شاہد خاقان عباسی کو تو کسی صورت دھمکی آمیز بات زیب نہیں دیتی وہ 45 روز کے لیے وزیر اعظم بن رہے ہوں یا45 منٹ کے لیے ۔ اس منصب کا احترام اور وقار اس بات کا متقاضی ہے کہ زبان کا استعمال کرتے وقت احتیاط سے کام لیا جائے ۔ میاں نواز شریف اس اعتبار سے احتیاط کرتے تھے زبان پھسل جانا اور بازاری جملے کہنے میں فرق ہے ۔ جس طرح سب کو پاکستان میں حکومت کے بد عنوانی میں ملوث ہونے اور وزیر اعظم کے نا اہل ہونے پر ساری دنیا میں بدنامی کا خوف ہے اسی طرح اس قسم کی گفتگو پر بھی دنیا بھر میں ملک بدنام ہو سکتا ہے ۔اور جمائما کو پریشان کرنے پر عمران خان کو تکلیف ہے تو یقیناًشریف خاندان کو ایسے جملوں پر تکلیف ہوتی ہوگی۔ توقع ہے کہ ایسے انداز سے احتراز کر کے صورتحال کو سنگین ہونے سے روکا جا سکے گا ۔