سعودی عرب میں سب کچھ خراب نہیں

202
zc_Muzafer
آخری حصہ
اردو یا انگریزی میں توسواک کا مطلب لکھنا مناسب نہیں لگا اس لیے ہم نے مسرت خلیل کے بارے میں عربی کا سہارا لیا انہوں نے پورے قیام جدہ میں بلکہ مکہ سے جدہ لانے اور آخری روز عمرہ کرانے تک یہ ذمے داری ادا کی۔ لیکن آخری روز کمال کردیا۔ انجینئرز فورم کے استقبالیہ کے بعد انہوں نے کہا کہ آپ گھر پہنچیں میں گاڑی لے کر آرہا ہوں مکہ مکرمہ چلنا ہے۔ ہم گھر پہنچے تیاری کررہے تھے کہ مسرت خلیل آگئے۔ ان سے کہا کہ آپ بھی آرام کرلیں تھوڑی نیند لے لیں۔ انہوں نے بھی کہا کہ بھائی ابھی دوائیں کھانی ہیں۔ ان کو ایک کمرے میں لٹایا، ڈیڑھ بجے رات کو ان کو اٹھانے گئے تو جلدی سے اُٹھ کر بیٹھ گئے۔ اپنی دوائیں کھائیں اور ہم اپنے کمرے سے واپس آئے احرام باندھ کر بیٹھے تھے ان کی طرف دیکھا تو وہ پھر سو رہے تھے۔ پھر ہمت کرکے 2 بجے اُٹھاہی دیا۔ نیچے پہنچے تو پتا چلا کہ آج ڈرائیور نہیں ہے وہ خود ڈرائیور کریں گے۔ ہمیں تھوڑی سی پریشانی ہوئی لیکن اظہار نہیں کیا۔ بس یہ فیصلہ کیا کہ راستے بھر سونا نہیں ہے اور ہم اس فیصلے پر قائم رہے، معمول کی رفتار سے آہستہ گاڑی چلاتے ہوئے وہ ہمیں مکہ مکرمہ پہنچانے میں کامیاب ہوگئے۔ ہم نے عمرہ ادا کیا اور صبح تقریباً چھ بجے یا ساڑھے چھ بجے فارغ ہوئے تو فون پر رابطہ ہوا۔ مسرت خلیل اس وقت تک مکہ کے مختلف چوراہوں اور سڑکوں کے کنارے گاڑی میں گھومتے رہے، پارکنگ کی جگہ نہیں تھی۔ بہر حال انہوں نے ہمیں گاڑی میں بٹھایا۔ جب جدہ پہنچ گئے تو روح فرسا انکشاف ہوا۔ کہ آج کوئی چار سال بعد گاڑی چلائی ہے دل کے آپریشن اور دیگر بیماریوں کی وجہ سے گاڑی بالکل نہیں چلا رہا تھا۔ ڈاکٹروں نے بھی منع کیا تھا۔ ہم سوچنے لگے کہ اگر روانگی سے قبل یہ بتادیا ہوتا تو ہمارا کیا حال ہوتا۔ شاید یہ عمرہ نہایت خشوع و خضوع سے ہوتا۔ ہر لمحہ اللہ یاد رہتا۔ خیر یہ تو ایسا معاملہ تھا کہ اس پر مسرت خلیل کو جزائے خیر کی دعا ہی دی جاسکتی ہے۔ کچھ باتیں ایسی ہیں جن پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ لیکن توجہ دلانا ضروری ہے۔ طواف، سعی، تراویح، حرم مکی مدنی، زیارتوں مسجد قبا، قبلتین، مرقدنبوی ؐ، سلام کے دوران جنت البقیع ہر جگہ عجیب بدعت دیکھی۔ لوگ موبائل فون لیے ویڈیو بنانے اور تصویریں بنانے میں مصروف رہے۔ نماز، طواف اور سعی وغیرہ میں حضور قلبی اور خشوع کی ہماری کیفیت بھی کچھ اچھی نہیں۔ لیکن پھر بھی ایسا کرنے والوں کے لیے یہی مشورہ ہے کہ ایک سفر عمرے کے لیے بھی کرلیں۔ اگر طواف، سعی، زیارت، سلام پڑھنے کی ویڈیو بنارہے ہوں گے تو دعا کیا مانگ رہے ہوں گے۔ ساری توجہ تو موبائل پر ہوگی۔ یہ بیماری صرف ہندوستان پاکستان والوں ہی کی نہیں تھی بلا استثنا سب ہی اس میں مبتلا تھے۔ معلوم نہیں کب سے اس کی اجازت ہوگئی۔ کہاں تو موبائل کیمرے ہی کو حرام قرار دیا گیا تھا اور کہاں ہر شخص ویڈیو بناتا پھر رہا تھا۔ دوسری افسوس ناک بات وہ تھی جس میں پاکستانی زیادہ ملوث تھے یا شاید یہ دھندہ کرنے والے جانتے ہیں کہ کس سے بات کرنی ہے۔ ہماری مراد ان لوگوں سے ہے جو حرم کے اندر کھڑے ہو کر جھوٹ بولتے ہیں۔ سوال کرتے ہیں ایکسکیوز می۔ آپ پاکستانی ہیں؟؟ جی…!! وہ بڑے افسوس سے بتا رہا ہوں کہ میری جیب کٹ گئی ہے سارے پیسے چلے گئے۔ اقامہ بھی نہیں بچا فی الحال کچھ مدد کردیں۔ یا میں عمرے پر آیا تھا پاسپورٹ سمیت ساری رقم لٹ گئی ابھی تو ہوٹل کا کرایہ دینا ہے پھر واپسی کے مسائل ہیں۔ بعض لوگ تو اس دوران رونے بھی لگتے ہیں۔ ہمارے دوست جنید سلیم حسب حال والے جب اردو نیوز میں تھے تو انہوں نے ایسے لوگوں کا یہ حل تلاش کیا تھا۔ کہ ان کے قریب آکر راز داری سے بولتے تھے۔ میرا بھی یہی دھندہ ہے۔ یہ سن کر وہ بندہ بھاگ نکلتا۔ لیکن اس سارے عمل سے پاکستان کی بڑی خراب تصویر بنتی ہے۔ اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمارے جو ادارے، جو ٹریول ایجنسی لوگوں کو بھیجتے ہیں وہ بھی احتیاط کریں اور خصوصاً پاکستانی سفارت خانہ بھی۔ اگر سارے دورے کے تاثرات اور روحانی ماحول کا ذکر کریں تو شاید ایک ایک دن کی روداد کئی کئی صفحات پر آئے گی لیکن حرمین کی ترقی کے حوالے سے ذکر نہ کرنا بھی بخل ہوگا۔ سعودی حکام نے اس
حوالے سے بے حساب خرچ کیا ہے اور نہایت مستعدی کا مظاہرہ کیا ہے۔ عمرہ سیزن ختم ہوتے ہی وہ چند روز بعد حج سیزن کی تیاری میں مصروف ہوگئے۔ حرمین کی فضا کے روحانی ہونے کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ہم عیدالفطر کے دوسرے روز مدینہ منورہ گئے وہاں 5 روز قیام کیا لیکن ایک دن بھی ایسا نہیں لگا کہ رمضان ختم ہوگئے ہیں۔ جدہ آتے ہی رمضان کی فضا ختم ہوگئی۔ یہ روحانی ماحول حرمین ہی میں رہتا ہے۔ کچھ بیان حکومت پاکستان کی ذمے داریوں کا بھی ہوجائے۔ جب ہم جدہ میں رہتے تھے تو پاکستانی سفارت خانے اور قونصل خانے کے لوگ پاکستانیوں سے رابطے میں رہتے تھے۔ ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے تھے لیکن اب یہ تاثر ملا کہ اپنے ہی لوگوں سے کوئی اختلاف چل رہا ہے۔ ہوسکتا ہے یہ محض تاثر ہو۔ لیکن کچھ مجبور و بے کس پاکستانیوں سے مل کر ایسا ہی لگا۔ بہرحال یہ یاد رہے کہ وہاں سب کچھ خراب نہیں بہت کچھ اچھا بھی ہے۔ بس یہ جو جمہوریت کا درد ہمارے پیٹ میں اٹھتا ہے خدا کے واسطے سعودی عرب کو اس درد سے محفوظ ہی رکھیں۔ جمہوریت نے جو گل امریکا، بھارت، پاکستان وغیرہ میں کھلائے ہیں وہ اس کے لیے کافی دلیل ہیں اور ہاں۔۔۔ اب فون آنے لگے ہیں کہ کب تک چلے گا یہ سفر نامہ ۔۔۔ ایک صاحب نے توب یہ تک کہہ دیا کہ سعودی حکومت کی جانب سے اگلا حج سرکاری خرچ پر پکا ہو گیا ۔ لہٰذا۔۔۔ آج اور ابھی ختم شد