حج کے موقع پر کشیدگی کے خدشات

361
Edarti LOH
عرب ممالک نے گزشتہ ماہ قطر کا مقاطعہ کر کے فیصلہ کیا تھا اس کے بعد ترک صدر ایردوان کے دورۂ سعودی عرب میں اس حوالے سے نرمی کا عندیہ دیا گیا تھا اور قطر کے خلاف 7 شرائط واپس لے لی گئی تھیں ۔ لیکن اتوار کے روز بحرین میں ہونے والے ایک اجلاس میں عرب ممالک نے اپنے پرانے موقف کو دہرایا ہے کہ قطر کو 6نہیں تمام 13مطالبات ماننے ہوں گے ۔ تاہم جس مفروضہ قسم کے مطالبات ماننے پر زور دیا گیا ہے وہ ماننے سے قطر از خود دہشت گردوں کی معاونت کا اعتراف کر لے گا ۔ قطر سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ مذاکرات کے لیے یہ اعلان کرے کہ قطر دہشت گردوں کی مالی معاونت اور ہمسایہ ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا سلسلہ ترک کر رہا ہے ۔۔۔اس کے بعد مذاکرات شروع ہوں گے ۔ اب جو ملک بھی یہ بیان دے گا وہ ایک ہی جملے میں دو جرائم کا اعتراف کرر ہا ہو گا ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جو لوگ شرائط طے کر رہے ہیں یا اس کے لیے جملے تحریر کروا رہے ہیں وہ معاملہ حل کرنا ہی نہیں چاہتے ہیں ۔ ورنہ یہ بھی کہا جا سکتا تھا کہ قطر ہر قسم کے دہشت گردوں کی حمایت کا مخالف ہے اور کسی ملک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی اس کی پالیسی نہیں ۔۔۔ بہر حال اگر عرب ممالک مسئلہ حل نہیں کرنا چاہتے تو نہ کریں لیکن حج کے موقع پر کشیدگی کو ہوا دینے کی ضرورت نہیں ۔ قطر نے بھی اپنے عازمین کے لیے رکاوٹوں کی شکایت کی ہے اور عرب ممالک نے ایک مفروضہ قائم کیا ہے کہ قطر نے حج کے موقع پر مقدس مقامات کو بین الاقوامی حیثیت دینے کا مطالبہ کیا ہے اور اس مفروضے پر سخت رد عمل ظاہر کیا ہے جبکہ اس کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے ۔ دوسری طرف ایران کے عازمین حج حجاز مقدس پہنچ گئے ہیں ان کی روانگی کے وقت ایران کے روحانی رہنما خامنہ ای نے کہا ہے کہ مسجد اقصیٰ اور خطے میں امریکی موجودگی کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے کے لیے حج بہترین موقع ہے ۔ ان کایہ کہنا بجا ہے کہ صہیونی زیادہ نڈر ہو گئے ہیں اور گستاخی پر اُتر آئے ہیں لیکن صہیونیوں کے خلاف احتجاج کے لیے حج کو استعمال کرنا سمجھ سے بالا تر ہے بلکہ حج کے اجتماع کے موقع پر کسی بھی قسم کے انتشار کا سبب بن سکتا ہے سعودی عرب اور ایران کے درمیان پہلے بھی اس حوالے سے تنازع ہو چکا ہے ۔ ایرانی حج کے موقع پر امریکا اور اسرائیل کے خلاف احتجاج کریں گے تو امریکا کے اتحادی سعودی عرب کی پوزیشن خراب ہو گی ۔ سعودی عرب اگر اس احتجاج کو طاقت کے ذریعے روکے گا تو اسے صہیونیوں کی مدد اور ان کے خلاف احتجاج کو روکنے کی کوشش سے تعبیر کیا جائے گا ۔ اب جبکہ ایرانی عازمین سعودی عرب کا رُخ کر چکے ہیں اور یہ تعداد 90 ہزار ہو گی جو کسی بھی مرحلے پر نظم و ضبط خراب کرنے کا سبب بن سکتے ہیں ۔ دو برس قبل صرف 5 سو ایرانی حاجیوں نے رمی کے بعد واپسی کا غلط راستہ اختیار کر کے نہ صرف بھگدڑ مچا دی تھی بلکہ اس کے نتیجے مین 3 ہزار کے لگ بھگ حاجی جاں بحق ہو ئے تھے ۔ وہ تو ایک بھگدڑ تھی لیکن حج کے موقع پر اُٹھ کھڑے ہونے کا خامنہ ای کا بیان خطرے کی گھنٹی ہے ۔ کیا انہوں نے ایرانی عازمین کو پیغام دیا ہے کہ ایسا کوئی مظاہرہ کیا جائے ۔ دوسری جانب قطر کے حوالے سے جس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اس نے ایسا کوئی مطالبہ کیا ہے یا نہیں کہ مقدس مقامات کو بین الاقوامی حیثیت دی جائے لیکن یہ بُھلا دیا گیا ہے کہ ایران یہ مطالبہ پہلے کر چکا ہے ۔ اور اب اگر سعودی عرب کے حکام نے طاقت کے ذریعے کسی احتجاج یا مظاہرے کو روکنے کی کوشش کی تو مسائل مزید بگڑ سکتے ہیں ۔ ابھی وقت ہے عرب ممالک اپنے اتحاد کو دوبارہ مضبوط کرنے کی کوشش کریں ۔