گم گشتہ ’’پیس پروسیس‘‘ کی بحالی کا خواب

290

zc_ArifBeharمقبوضہ کشمیر کی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے اپنی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے قیام کے اٹھارہ برس مکمل ہونے کے موقع پر سری نگر میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کچھ کھلے اور کچھ ڈھکے لفظوں میں کشمیر اور کشمیریوں کو پنجرے سے آزاد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ محبوبہ مفتی کے خطاب کے چند اہم نکات یوں تھے۔ کشمیر اور کشمیری پنجرے میں بند ہیں انہیں آزاد کرنے سے ہی جموں کشمیر کے مسئلے کا پائیدار اور منصفانہ حل نکالا جا سکتا ہے۔ بھارت کشمیر کے دونوں حصوں میں آمد ورفت کے تمام راستے کھول دے جن میں سیالکوٹ جموں روڈ بھی شامل ہے جو ریاست کو براہ راست پاکستان سے ملاتی ہے۔ منقسم کشمیر کے آر پار قانون ساز اسمبلی کا قیام عمل میں لایا جائے اور سال میں کم ازکم دو مرتبہ اس اسمبلی کے اجلاس سری نگر اور مظفر آباد میں منعقد کیے جائیں۔ روایتی راستوں کو بند کرنے سے جموں وکشمیر ایک پنجرے کی شکل اختیار کر گیا ہے اور ان راستوں کو کھول کر اسے آزادی دی جائے۔ نظریات کو قتل کیا جا سکتا ہے نہ قید البتہ انہیں متبادل نظریات سے بدلا جا سکتاہے۔ آزادی ایک نظریہ ہے جس کی وجہ سے پتھر بازی ہوتی ہے، تشدد ہوتا ہے۔ بندوق چلتی اور افراتفری پھیلتی ہے۔ اسی نظریے کی وجہ سے آج کے نوجوان کو فوج، پولیس، سی آر پی کسی چیز سے ڈر نہیں لگتا یہی نظریہ آج کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ سری نگر مظفرآباد تجارت کو کسی صورت بند نہیں ہونے دیا جائے گا بلکہ مزید راستے کھولنے کا مطالبہ جا ری رہے گا۔
محبوبہ مفتی جب یہ خطاب کر رہی تھیں تو انہوں نے سبز لباس زیبِ تن کر رکھا تھا۔ کشمیر میں شیخ عبداللہ کے زمانے سے ہی سبز رنگ اور لباس کی ایک علامتی حیثیت ہوتی ہے۔ کشمیر گزشتہ ایک سال سے جس کربناک دور سے گزرا ہے محبوبہ مفتی کے لب ولہجے پر اس کے اثرات نمایاں ہیں۔ محبوبہ مفتی اور ان کی جماعت کی سیاست کا ظہور کشمیر میں عسکریت کے دور کے بعد شروع ہونے والے سیاسی عمل کے ساتھ ہی ہوا تھا۔ یہ کشمیریوں کے اُبلتے جذبات اور رستے زخموں پر سیاسی مرہم رکھنے کی ایک کوشش تھی جس میں عالمی طاقتوں کا گہرا عمل دخل بھی تھا۔ اسی لیے محبوبہ مفتی اور ان کے والد مفتی محمد سعید نے وادی میں آزادی پسندوں، پاکستان اور عوام کے مقبول جذبات سے قریب تر محاورے اور اصطلاحات اپنائیں۔ انہوں نے کشمیری عسکریت کے مضبوط کرداروں کے ساتھ بھی روابط قائم کیے۔ انہی کے دور میں تاریخ میں پہلی بار سری نگر مظفرآباد بس سروس کے افتتاح کے موقع پر من موہن سنگھ کے ساتھ جنرل پرویز مشرف کی صورت کسی پاکستانی حکمران کے پورٹریٹ بھی سجائے گئے۔ محبوبہ مفتی اس دن آزادکشمیر سے جانے والے مسافروں کو چکوٹھی کے مقام پر خوش آمدید کہنے کے لیے بنفس نفیس موجود تھیں اور انہوں نے کشمیر میں پاکستان کی علامت سمجھے جانے والے سبز رنگ کا لباس پہنا ہوا تھا۔ محبوبہ مفتی کی جماعت کشمیر میں خود مختاری کا مطالبہ کر رہی تھی اور اسی دوران پاکستان میں جنرل پرویز مشرف نے بھی اپنا چار نکاتی فارمولہ پیش کیا تھا جس میں کشمیر سے فوجی انخلا کے بعد اسے ایک نیم خود مختار علاقے کی حیثیت دینا مقصود تھا۔ ان اقدامات کو امریکا کی حمایت ہی حاصل نہیں تھی بلکہ وہ فریقین پر مسلسل دباؤ برقرار رکھے ہوئے تھا۔ عالمی چھتر چھائے میں منعقد ہونے والی یہ کوشش کامیاب نہیں ہو سکی مگر سری نگر مظفر آباد تجارت اور منقسم خاندانوں کے درمیان آمدورفت کی کچی ڈور جیسے تیسے بحال ہی رہی۔
یہ سارے اقدامات مصنوعی ثابت ہوئے اور کشمیر کی سرزمین پر فوجی جماؤ اور دباؤ اور انسانی حقوق کے حوالے سے کوئی بڑی تبدیلی رونما نہ ہو سکی۔ اب ایک پرانے کیس میں بھارت کی قومی تحقیقاتی ایجنسی نے حکومت کو سری نگر مظفر آباد تجارت بند کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ چند دن قبل مظفر آباد سے سری نگر جانے والے ایک مال بردار ٹرک سے ساٹھ کلو گرام کے قریب ہیروئن برآمد ہوئی تھی جس کے بعد بھارتی ایجنسیوں نے ٹرک کو ضبط کرکے آزادکشمیر کے شہری ڈرائیور کو گرفتار کر لیا تھا۔ ماضی میں بھی ایسے دو واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ ان واقعات میں بھی آزادکشمیر کے ڈرائیور سری نگر کی جیل میں سڑ رہے ہیں۔ کنٹرول لائن پر منقسم خاندانوں کے لیے کھلنے والی یہ کھڑکی عالمی مافیا کی نظروں میں آگئی ہے اور وہ اس راستے کو ہیروئن کی اسمگلنگ کے لیے استعمال کرنے کی بار بار کوشش کررہی ہے۔ کچھ واقعات میں اس مذموم حرکت میں عالمی نیٹ ورک کا ہاتھ ثابت ہو چکا ہے۔ عین ممکن ہے کہ اس عمل کو بھارت کی اشیرباد بھی حاصل ہو کیوں کہ اب بھارت کی طرف سے کشمیر کے دونوں حصوں میں تجارت کو بند کرنے کی باتیں ہونے لگی ہیں اور محبوبہ مفتی نے ان آوازوں کی مخالفت کی ہے بلکہ نئے راستوں پر آمدورفت اور تجارت شروع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے اعلانِ لاہور کے بعد شروع ہونے والے عمل کی بحالی پر بھی زور دیا ہے مگر یہ پاکستان اور بھارت کے درمیان شروع ہونے والا وہ پیس پروسیس تھا جس پر امریکا کی چھاپ تھی۔ اب امریکا جس طرح جنوبی ایشیا کے تنازعات میں بھارت کے ساتھ کھڑا ہو رہا ہے اس سے امریکا کی پاکستان پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت کم ہو گئی ہے۔ اس لیے محبوبہ مفتی کی آواز صدا بصحرا ثابت ہونا یقینی ہی ہے۔