جھوٹ اور دھوکے کو ’’قانونی‘‘ قرار دے دیں!

269

zr_M-Anwerپاناما کیس کا فیصلہ آگیا اس فیصلے کے تحت میاں نواز شریف نااہل کیا ہوئے کہ پوری مسلم لیگ ہی سکتے میں ہے۔ مسلم لیگ کے اچھی خاصی شہرت رکھنے والے رہنماء بھی اس فیصلے کو تسلیم کرنے کے باوجود اسے قبول نہیں کر رہے اور فیصلے کے خلاف بعض ایسے جملے ادا کر رہے ہیں جو توہین عدالت کا باعث ہیں۔ یہ لوگ ایسا تاثر دے رہے ہیں جیسے میاں نواز شریف ملک کے لیے انتہائی مخلص اور ایماندار و دیانت دار حاکم تھے۔ وہ غیر منصفانہ فیصلے کا شکار ہوئے ہیں۔ سابق وفاقی وزیر ریلوے اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ اگر اس ملک میں صادق اور امین کا تماشا لگایا گیا تو بات بہت دور تک جائے گی، ایک شریف گیا تو دوسرا آرہا ہے لیکن اگر دوسرے شریف کو بھیجوگے تو تیسرے شریف کو لائیں گے۔ لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے انتہائی بے بسی سے اس بات کا بھی اظہار کیا کہ پاکستان کے آئین کی شق 62 اور 63 کو آئین سے نہ نکالنا ’’ہماری نااہلی ہے، معلوم نہیں تھا کہ 62 اور 63 ہمارے لیے 58 ٹو بی بن جائے گا‘‘۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی نااہلی منی لانڈرنگ یا اپنے عہدے کے ناجائز استعمال پر نہیں ہوئی بلکہ ایسی تنخواہ پر ہوئی ہے جو بیٹے کی کمپنی سے ملنی تھی اور وہ ملی بھی نہیں۔
پاناما اسکینڈل کے فیصلے سے صرف نواز شریف ہی نہیں بلکہ ان کے دونوں بیٹے حسن نواز، حسین نواز اور بیٹی مریم اور سمدھی اسحاق ڈار قانون کی گرفت میں آچکے ہیں۔ اس کے باوجود قومی اسمبلی میں مسلم لیگ کی اکثریت موجود ہے جو ان ہاؤس تبدیلی کے نتیجے میں اپنا عبوری یا مستقل وزیراعظم باآسانی لے آئے گی۔ مگر اس کے باوجود ’’شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں‘‘ نے آسمان سر پر اٹھایا ہوا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ ’پالتو لیڈر‘‘ اپنے مالک کے مفادات کا اپنی حیثیت سے زیادہ خیال رکھتے ہیں۔ انہیں اپنے لیڈر کی مورثی سیاست کی فکر ہے۔ حالاں کہ انہیں جمہوریت کی فکر ہونی چاہیے اور اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ان کے لیڈرز اور وزیراعظم بے تحاشا الزامات کے باوجود ان کی مسلم لیگ کی حکومت قائم کیے جانے کے مواقعے موجود ہیں۔ مسلم لیگ کے سابق وزراء کی جانب سے یہ تاثر بالکل ہی غلط ہے قوم کے دلوں میں نواز شریف بستے ہیں، سچ تو یہ ہے کہ ایک سے زائد بار جلسوں میں نواز شریف کو تقریر کے دوران ’’گو نواز گو‘‘ کے نعرے سننے اور برداشت کرنا پڑے۔ ایک موقع پر تو پنجاب میں ایسا منظر بھی لوگوں نے دیکھا کہ نواز شریف تقریر شروع کرنے لگے تو لوگوں نے ان کے خلاف نعرے بازی شروع کردی اور نعرے لگانے والوں کی حوصلہ افزائی ہاتھ کے اشارے سے وزیراعلیٰ پنجاب شہاز شریف کررہے تھے جو اب جلد ہی وزیراعظم بن جائیں گے۔ وراثتی سیاست کے رکھوالے یہ لیڈر اپنی پارٹیوں کا نظام اپنے کسی ناپسندیدہ بھائی کو تو دے سکتے ہیں لیکن جمہوری تقاضوں کے مطابق کسی غیر رشتے دار اور مخلص لیڈر کے حوالے نہیں کرتے۔ کیوں کہ ان کی پارٹی ان کی ذاتی جائداد کی طرح ہے جسے بے وقوف کارکنوں کی محنت سے چلایا جاتا ہے۔
نواز شریف نے اپنے تیسرے اور ممکنہ آخری دور میں ملک کی کس طرح خدمت کی اس تفصیلات ان کے لیے آئینے سے کم نہیں ۔ انہیں آئینہ دکھانا ضروری ہے۔ نواز شریف کے اقتدار سنبھالنے کے سال یعنی جون 2013 میں پاکستان پر کل بیرونی قرضہ 48.1 ارب ڈالر تھا۔ جو جون 2017 تک 78.1 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ مطلب صرف چار سال میں 30 ارب ڈالر کا ریکارڈ قرضہ لیا گیا۔ یہ اتنا زیادہ ہے کہ پاکستان پر عالمی مالیاتی اداروں کا بھروسہ ہی ختم ہوگیا اور تاریخ میں پہلی بار مزید قرضہ حاصل کرنے کے لیے پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں کے پاس اپنی موٹرویز، ہوائی اڈے اور ریڈیو پاکستان کی عمارات گروی رکھوانی پڑیں۔ مالی سال 2012/13 میں پاکستان کا کل تجارتی خسارہ 15 ارب ڈالر تھا۔ جو مالی سال 2016/17 میں کل 24 ارب ڈالر ہو چکا ہے۔ جو پاکستان کی تاریخ کا بدترین تجارتی خسارہ ہے۔ 2013 میں اندرونی قرضے 14318 ارب روپے تھے یہ قرضے رواں سال 2017 تک 20872 ارب روپے ہوچکے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ 2013 میں نواز شریف نے قومی خزانے میں سے میاں منشاء کو نہایت خطرناک انداز میں یکمشت 480 ارب روپے کی ادائیگی کر دی، جس کے بعد گردشی قرضہ 0 ہو گیا تھا۔ یعنی 500 ارب کا یہ گردشی قرضہ اس کے بعد صرف ان چار سال میں چڑھا ہے۔ ان کے اس دور میں روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں کم ہو کر 92 سے 107 پر پہنچ چکی ہے۔ کچھ ماہرین کے نزدیک یہ 107 پر مصنوعی طور پر روکی گئی ہے درحقیقت یہ 120 تک کم ہوچکی ہے اور اس کا پتا اچانک چلے گا جب یہ حکومت جائے گی۔
اس خطرناک صورت حال کے باوجود نواز شریف ان کے دوست نہ صرف سب اچھا ہے کے دعوے کرتے رہے بلکہ ان جھوٹے دعووں پر قانون کی گرفت سے بچنے کے لیے آئین کی شق 62،63 کو ختم نہ کرنے پر پچھتا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ شق ان کی حکومت کے لیے 58 ٹو بی بن چکی ہے۔ اس لیے اسے ہم جلد ہی ختم کردیں گے۔ مسلم لیگیوں اور ان جیسی سیاست کے نام پر لوٹ مار کرنے اور قوم کو دھوکا دینے والے سیاست دانوں کو چاہیے کہ وہ اسمبلی میں بل کے ذریعے ’’جھوٹ اور دھوکے بازی‘‘ کو حکومت وقت کے لیے قانونی عمل قرار دلوا دیں تاکہ ’’نہ رہے بانس گا نہ بجے گی بانسری‘‘ کے مصداق سارے معاملات چلتے رہیں۔
ملک کے نظام کو بہتر نہیں بلکہ بہترین بنانے کے لیے ملک سے کرپشن کا یقینی خاتمہ ناگزیر ہے۔ یہ تب ہی ممکن ہوگا جب ایماندارانہ اور دیانتدارانہ حکومتوں کا قیام یقینی بنایا جائے۔ اس مقصد کے لیے قوانین میں ترامیم کردی جائے ساتھ ہی ملک سے مورثی سیاست کے خاتمے کے لیے بھی نئی قانون سازی کی جائے۔ جب ایسا ہوگا تو نئے پاکستان کی نہیں بلکہ اسی پاکستان کو بہترین بنانے کی ابتدا ہوجائے گی۔