اذان کا جواب دینا

908

مولانا تبریز عالم قاسمی
اذان کا جواب ایک معمولی سا عمل ہے؛ لیکن انسانوں کی ایک بڑی تعداد اِس سے غافل ہے، اذان ہوتی رہتی ہے اور لوگ دنیاوی گفتگو میں مشغول رہتے ہیں اور اب تو نوجوانوں کے کانوں میں ایرفون ہوتے ہیں، ان کے پاس اذان سننے کی فرصت ہی کہاں ہے؟ عورتیں گھروں میں گھریلو کام کاج میں مصروف ہوتی ہیں اور بوقتِ اذان اپنا سر ضرور ڈھانپ لیتی ہیں؛ لیکن اذان کا جواب دینا یاد نہیں رہتا، دینی تعلیم اور سنتِ نبوی سے اتنی غفلت یقیناًہمارے اور ہماری قوم کے لیے خسارے کا سبب ہے۔ حالاں کہ مذکورہ عمل نہایت آسان ہے؛ لیکن اِس معمولی عمل پر داخلۂ جنت کی بشارت ہے، اللہ ہمیں اِس کی سمجھ عطا فرمائے۔ اِس معمولی سے عمل پر جنت کی بشارت کا راز کیا ہے؟ اذان واقامت کا پیغام کیا ہے اور یہ کیوں ضروری ہے؟ جوابات کے لیے کچھ تفصیل درج کی جاتی ہے۔
اذان نماز کے لیے آنے کی لوگوں کو دعوت ہے، اِس بْلاوے پر مسجد پہنچنا اجابتِ فعلی ہے اور منہ سے اذان کا جواب دینا اجابت قولی (زبانی جواب دینا) ہے اور دونوں ہی مطلوب ہیں، اول کی تاکید زیادہ ہے؛ کیوں کہ اذان سے وہی اصل مقصود ہے اور ثانی سنت ہے، دونوں طرح سے جواب دینے کا الگ الگ حدیثوں میں حکم دیا گیا ہے اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ اذان کی دو حیثیتیں ہیں، ایک: یہ کہ وہ جماعت میں آنے کا بْلاوا ہے، دوسرے: یہ کہ وہ ایمان کی دعوت عام ہے، پہلی حیثیت سے اذان سننے والے ہر مسلمان پر ضروری ہے کہ وہ اذان سنتے ہی نماز میں شرکت کے لیے تیار ہوجائے اور ایسے وقت مسجد میں پہنچ جائے کہ جماعت میں شریک ہوسکے اور دوسری حیثیت سے ہر مسلمان کو حکم ہے کہ جب وہ اذان سنے تو اپنے ایمان کی تجدید کرے اور اذان کے ہر کلمے کا جواب دے اور اپنے دل اور زبان سے ان باتوں کی تصدیق کرے۔ شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں: اذان دین کا شعار اور اْس کی امتیازی علامت ہے اور یہ شعاراِس لیے مقرر کیا گیا ہے کہ اِس کے ذریعے پتا چلے کہ قوم نے ہدایتِ الٰہی یعنی دین اسلام کی دعوت قبول کی یا نہیں؟ جو اذان سن کر نماز کے لیے آئے گا اْس نے دعوت قبول کی اور جس نے کان بَہرے کرلیے اس کے کان پھوٹے، غرض اِجابتِ قولی اْس تسلیم کو واضح کرتی ہے جس کا حصول لوگوں سے مطلوب ہے۔
مولانا منظور نعمانیؒ نے بڑی قیمتی بات لکھی ہے، اذان واقامت کے اِس پیغام کو سمجھنا چاہیے اور دوسروں تک پہنچانا چاہیے، وہ لکھتے ہیں:
دین کے سلسلے میں سب سے پہلی چیز ا للہ تعالیٰ کی ذات وصفات کا مسئلہ ہے، اِس بارے میں اسلام کا جو نظریہ ہے اِس کے اعلان کے لیے اللہ اکبر اللہ اکبر سے بہتر اور اتنے جاندار الفاظ تلاش نہیں کیے جاسکتے، اِس کے بعد نمبر آتا ہے عقیدۂ توحید کا۔ بلکہ صفات کا مسئلہ اْسی سے صاف اور مکمل ہوتا ہے، اس کے لیے ’’اشہد ان لاالٰہ الا اللہ‘‘ جیسا جاندار اور موثرکوئی دوسرا مختصر کلمہ منتخب نہیں کیا جاسکتا۔ پھر اس حقیقت کے و اضح اور معلوم ہوجانے کے بعد کہ بس اللہ ہی ہمارا الٰہ ومعبود ہے، یہ سوال فوراً سامنے آجاتا ہے کہ اْس اللہ تک پہنچنے کا راستہ، یعنی اِس سے بندگی کا صحیح رابطہ قائم کرنے کا طریقہ کہاں سے معلوم ہوسکے گا؟ اِس کے جواب کے لیے ’’اشہد ان محمدا رسول اللہ‘‘ سے بہتر کوئی کلمہ نہیں سوچا جاسکتا۔ اِس کے بعد ’’حی علی الصلاۃ‘‘ کے ذریعے اْس صلوٰۃ کی دعوت دی جاتی ہے، جو اللہ تعالیٰ کی عبادت وبندگی اور اْس سے رابطہ قائم کرنے کا سب سے اعلیٰ ذریعہ ہے اور اللہ کی طرف چلنے والے کا سب سے پہلا قدم بھی ہے۔ اِس کے بعد ’’حی علی الفلاح‘‘ کے ذریعے اْس حقیقت کا اعلان کیا جاتا ہے کہ یہی راستہ فلاح یعنی نجات وکامیابی کی منزل تک پہنچانے والا ہے اور جو لوگ اس راستے کو چھوڑ کر دوسری راہوں پر چلیں گے وہ فلاح سے محروم رہیں گے، گویا اِس میں عقیدہ آخرت کا اعلان ہے اور ایسے الفاظ کے ذریعے اعلان ہے کہ ان سے صرف عقیدہ ہی کا علم نہیں ہوتا؛ بلکہ وہ زندگی کا سب سے اہم اور قابل فکر مسئلہ بن کر ہمارے سامنے کھڑا ہوجاتا ہے اور آخر میں ’’اللہ اکبر ا للہ اکبر، لا الٰہ الا اللہ‘‘ کے ذریعے پھر یہ اعلان اور پْکار ہے کہ انتہائی عظمت وکبریائی والا بس اللہ ہی ہے اور وہی بلا شرکتِ غیر ے الٰہ برحق ہے؛ اِس لیے بس اْسی کی رضا اپنا مطلوب ومقصود بناؤ۔