مولانا گل نواز
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مہتم بالشان خطبہ وہی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر دیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری آنسو جو اپنی امت کے غم میں بہے، اسی میں جمع ہیں۔ حمد وصلوۃ کے بعد خطبے کا پہلا درد انگیز فقرہ یہ تھا:
’’لوگو سنو! شاید میں اس سال کے بعد اس جگہ، اس مہینے میں اور اس شہر میں تم سے نہ مل سکوں۔‘‘
بقول سید سلیمان ندویؒ ’’غالباً یہ سادہ سا جملہ تھا کہ یہ میری عمر کا آخری سال ہے، مگر انداز بیان نے اس مفہوم کو ایسا زور دار بنایا کہ اجتماع کی غرض وغایت سب کے سامنے آگئی، جسے سن کر سارا مجمع تڑپ کر رہ گیا۔‘‘ اس کے بعد اصل پیغام کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:
’’لوگو! بے شک تمہارا رب ایک ہے اور بے شک تمہارا باپ ایک ہے۔ ہاں! عربی کو عمجی پر، عجمی کو عربی پر، سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں، مگر تقویٰ کے ساتھ۔‘‘
عرب میں فساد کے دو بڑے اسباب ادائے سود اور مقتول کے انتقام کے بارے میں فرمایا:
’’جاہلیت کے تمام خون (یعنی انتقام خون) باطل کر دیے گئے اور سب سے پہلے میں (اپنے خاندان کا خون) ربیعہ بن حارث کے بیٹے کا خون باطل کر دیتا ہوں اور جاہلیت کے تمام سود بھی باطل کر دیے گئے اور سب سے پہلے اپنے خاندان کا سود عباسؓ بن عبدالمطلب کا سود باطل کرتا ہوں۔‘‘
خاتمہ تقریر کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے پوچھا کہ تم سے خدا کے ہاں میری نسبت پوچھا جائے گا، تم کیا جواب دو گے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: ہم کہیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کا پیغام پہنچا دیا اور اپنا فرض ادا کر دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف انگلی اٹھا کر ’’اللھم اشھد، اللھم اشھد، اللھم اشھد‘‘ بار بار اللہ کو پکارا کہ مخلوق خدا کے دل پگھل گئے، آنکھیں پانی بن گئیں اور روحیں انسانی جسموں کے اندر تڑپ کر الامان! الغیاث! کی صدائیں بلند کرنے لگیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبات تاثیر اور رقت میں درحقیقت معجزۂ الہٰی تھے، پتھر سے پتھر دل بھی لمحوں میں موم ہو جاتے تھے۔ ایک صحابیؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے ہی خطبے کی منظر کشی یوں کرتے ہیں: ’’صبح کی نماز کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ایسا مؤثر وعظ کہا کہ آنکھیں اشک ریز ہوگئیں اور دل کانپ اٹھے۔‘‘ (ترمذی)
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کھڑے ہوئے اور اس میں فتنۂ قبر کو بیان کیا، جس میں انسان کی آزمائش کی جائے گی، جب یہ بیان کیا تو مسلمان چیخ اٹھے۔‘‘ (بخاری)
کتب احادیث وسیرۃ میں خطباتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم محفوظ ہیں۔ ان خطبات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت پر پیش کیا جس کی بدولت:
’’خود نہ تھے جو راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے‘‘
آج بھی ضرورت اسی بات کی ہے کہ خطباتِ نبوی کی روشنی میں انفرادی واجتماعی وعالمی سطح پر انسان کو شعور دے کر انسانیت کو ترقی کی معراج پر لے چلیں۔