کیا ایسے ہی وزیر اعظم آتے رہیں گے

181

Edarti LOHسابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے معزولی کے فوراً بعد پہلے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شکوہ کیا تھا کہ وزیر اعظم ایسے جاتے رہے تو ملک حادثے کا شکارہو جائے گا ۔ لیکن جیسے وزیر اعظم آرہے ہیں اس کے نتیجے میں ملک کو کسی حادثے کی فکر کیوں نہیں ہے۔ شاہد خاقان عباسی بظاہر 45روز کے لیے وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں لیکن ان کے بارے میں جو الزامات اور جو کیسز ہیں جو معاملات چل رہے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آرہے ہیں ۔ بلکہ وہ تو سارے مراحل طے کرچکے ۔ ابھی یہ تو نہیں طے ہوا کہ ان کے خلاف اربوں روپے کے جو الزامات ہیں اور جو مقدمات ہیں وہ واقعی ان کے مجرم ہیں یا نہیں ۔ لیکن کیا پاکستان میں سیاسی پارٹیوں کو ایسے ہی لوگ نظر آتے ہیں جن کے بارے میں بدعنوانی کے الزامات ہوں ۔ تازہ خبر ایک خبر رساں ادارے کی ہے جس نے بتایا ہے کہ شاہد خاقان عباسی کے خلاف 20ارب ڈالر،ایل این جی کی درآمد میں اربوں روپے کی کرپشن کا الزام، مری ایئرمیکس، ناقص فرنس آئل کی درآمد، پیٹرولیم ڈیویلپمنٹ لیوی (پی ڈی ایل) سمیت کئی معاملات میں اربوں روپے کے گھپلوں کاالزام ہے۔ رپورٹ کے مطابق ان الزامات کی تحقیقات مکمل ہو چکی ہے ۔ چارج شیٹ بھی تیار ہے۔ مختلف اداروں کی آڈٹ رپورٹوں میں بھی بدعنوانی ظاہر کی گئی ہے اگر مسلم لیگ ن کو یہ زعم تھا کہ وزیر اعظم نواز شریف کرپشن پر نا اہل نہیں ہوئے تو ان کے بعد ایسے فرد کو نامزد کیا جاتا جس پر کم از کم کرپشن کے الزامات تو نہ ہوتے۔ کیا حکمران جماعت اتنی بانجھ ہے کہ اس کو الزامات سے پاک شخص 45دن کے لئے نہیں ملا۔ ممکن ہے خاقان کو یہ بات بری لگے لیکن ان کے انداز اچھے نہیں ہیں آنے سے قبل دھمکی، حلف اٹھاتے ہی دھمکی اور ساتھ ہی ساتھ نواز شریف کو واپس لانے کی بات اسمبلی میں سیاسی جماعت کے قائد کا پوسٹر لگا کر تقریر کرنا۔ یہ سب کچھ اچھی علامات میں سے نہیں ہے۔ ایک طرف قانونی جنگ لڑنے کی بات ہو رہی ہے اور دوسری طرف عبوری وزیر اعظم اپنے پہلے خطاب میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر کھلم کھلا تبصرہ کررہے ہیں بلکہ عدالت کی جانب سے تاحیات نا اہل قرار دیے گئے تو نواز شریف کے بارے میں کہا کہ وہ پھر وزیر اعظم بنیں گے۔ یہ تو عدالت عظمیٰ کو براہ راست چیلنج ہے۔ عبوری وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ سب کو اپنے معیار زندگی کے مطابق ٹیکس دینا ہوگا۔ یہ صرف عام افراد کے لئے ہے یانواز شریف، شہباز شریف ، اسحٰق ڈار وغیرہ کے لیے بھی یہی اصول نافذ ہوگا۔ اب تک تو یہ ہوتا آیا ہے کہ عوام تو معیار زندگی کے مطابق کے بجائے اس سے زیادہ ہی ٹیکس دینے پر مجبور ہیں ۔ لیکن امرا اور حکمران اس سے مستثنیٰ ہوتے ہیں۔ کیا 45روز میں عبوری وزیر اعظم کے لیے یہ ممکن ہوگا کہ وہ ٹیکس ادا نہ کرنے کے عادی حکمرانوں اور اُمراء کے طبقے کو ٹیکس دینے پر مجبور کردیں گے۔ انہوں نے خود کار اسلحہ واپس لینے کا بھی اعلان کیا ہے لیکن یہ کام بھی ایسا ہے جس میں امتیازی سلوک ہوگا۔ کیا عبوری وزیراعظم آصف زرداری صاحب اور ان کے محافظوں کے جلوس سے خود کار ہتھیار لے سکیں گے۔ اس قسم کے ہزاروں لوگ پاکستان بھر میں سڑکوں پر دندناتے پھرتے ہیں ان کے نہایت بد تہذیب گارڈز لوگوں کو دھتکار کر پرے ہوجاؤ کے نعرے لگارہے ہوتے ہیں کیا خاقان اعظم پنجاب کابینہ کے وزرا سے یا دوسرے اہم لوگوں سے یہ سہولت واپس لے سکیں گے یا پھر یہ بجلی بھی محض چند تاجروں یا لوٹ مار کے خدشات کا شکار صنعت کاروں پر ہی گرے گی۔ وزیراعظم نے اپنے خلاف الزامات کے بارے میں اچھا جواب دیا ہے کہتے ہیں کہ ہر الزام کا جواب دوں گا اور یہ کہ دولت بڑی محنت سے کمائی ہے۔ جناب ہر الزام کا جواب قوم کو نہیں درکار، قوم تو آپ کے خلاف الزامات کا عدالت کے ذریعے جواب چاہتی ہے۔ خواہ کسی نے کرپشن کی ہو یا نہیں وہ یہی کہے گا کہ میں بے قصور ہوں۔ اور یہ بھی خوب ہے کہ محنت سے دولت کمائی ہے۔ پاکستان میں محنت سے دولت کمانے پر کسی کو اعتراض نہیں، ناجائز ذرائع کے استعمال پر اعتراض ہے اصل بات بھی یہی ہے کہ دولت کن ذرائع سے کمائی۔ محنت تو چور ڈاکو بھی کرتے ہں بلکہ اپنی جان بھی خطرے میں ڈالتے ہیں تو کیا وہ بھی یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ ہم نے بڑی محنت سے دولت کمائی ہے۔ اگرچہ شاہد خاقان عباسی صاحب عبوری وزیراعظم ہیں لیکن عبوری وزیراعظم ہونے کے لیے جو شرائط ہیں وہ مستقل وزیراعظم والی ہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ خاقان صاحب 45 روزہ نظم و نسق چلانے نہیں آئے بلکہ میاں نواز شریف کی واپسی کی مہم چلانے آئے ہیں۔اور وہ جو نومبر کے بعد لوڈ شیڈنگ نہ ہونے کی بات ہے ایسا لگتا ہے کہ شہباز شریف کی کسی تقریر کا ٹکڑا ہاتھ آگیا تھا۔ یہ دعوے تو سب کرتے رہے ہیں نومبر تو 45 روز گزرنے کے بعد آئے گا۔