مکافات عمل

294

zc_JawedAKhanکچھ دن قبل میرا ایک آرٹیکل ایمل کاسی اور ممتاز قادری کی بددعائیں کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔ 28جولائی کو نواز شریف کی نااہلی کا عدالتی فیصلہ آیا تو 29جولائی کو ایک اخبار نے یہ شہ سرخی لگائی کہ نواز شریف کو ممتاز قادری کی پھانسی لے ڈوبی۔ مغربی ممالک کے دباؤ پر توہین رسالت کی مرتکب ایک مجرمہ آسیہ کی سزا پر عمل درآمد کے بجائے نواز شریف صاحب نے انتہائی خاموشی سے ممتاز قادری کو پھانسی دے دی ان کے گھر والوں کو ان سے ملاقات کے لیے بلایا گیا یہ نہیں بتایا کے صبح انہیں پھانسی دی جارہی ہے، لیکن سمجھنے والے اور بالخصوص ممتاز قادری سمجھ چکے تھے حکومت نے خاموشی سے کوئی فیصلہ کرلیا ہے اسی لیے تو جب ممتاز قادری کے بیٹے نے اپنے باپ سے یہ معصومانہ سوال کیا کہ ابو آپ گھر کب آئیں گے تو انہوں نے انتہائی اعتماد سے جواب دیا کہ بیٹا ہم کل گھر آجائیں گے۔
نواز شریف صاحب نے دوسری چالاکی یہ دکھائی کہ پھانسی کی تاریخ 29فروری رکھی تاکہ اس کی سالانہ برسی کا اہتمام نہ کیا جائے۔ دوسری چالاکی یا ہوشیاری حکومت نے یہ دکھائی کہ پراسرار انداز کی خاموشی اپنائی گئی کہ جس رات پھانسی ہوگی خبر تو دوسرے دن لگے گی جب تک تدفین کا عمل بھی مکمل ہوچکا ہوگا لہٰذا جنازے میں بہت بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت نہ ہو سکے گی۔لیکن ایک اخبار جسارت نے اسی صبح یہ خبر شائع کی جس کے نتیجے میں یہ خبر سینہ بہ سینہ اتنی تیزی سے پورے ملک میں پھیلی کہ ممتاز قادری کے جنازے میں ریکارڈ حاضری تھی بہت سارے لوگ تو میلوں پیدل چل کر جنازے میں شریک ہوئے تھے۔
اب مکافات عمل کی کہانی سنیے 29فروری 2016 کو ممتاز قادری کو پھانسی دی گئی اس سے ٹھیک ایک ماہ بعد پاناما کا ایشو سامنے آگیا جس پر ایک موقعے پر عمران خان کا یہ بیان بھی سامنے آیا کہ یہ نواز شریف کے خلاف قدرت کا سو موٹو ایکشن ہے۔جب پاناما کا ایشو سامنے آیا تو پیپلز پارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے اسے پارلیمنٹ کے ذریعے نمٹانے کی کوشش کی اگر ایسا ہو جاتا تو ن لیگ اور پی پی پی کے ارکان اسمبلی مل کر اس مسئلے کو کسی بہتر انداز میں ختم کرسکتے تھے۔ لیکن اس وقت کی حکومت یعنی نواز شریف صاحب نے اس کیس کو پارلیمنٹ کے ریکارڈ کا حصہ بنا نے کے بجائے کوشش کی کہ اسے سیاست اور صحافت کے ذریعے ہی ختم کردیا جائے ان کا خیال تھا کہ جس طرح میمو گیٹ اسکینڈل کا خاتمہ ہوا تھا اسی طرح اس مسئلے پر بھی کچھ عرصے شور شرابا ہو گا اور پھر یہ وقت کی گرد میں ازخود بیٹھ جائے گا کمیشن کے لیے ٹی او آر کمیٹی بھی بن چکی تھی لیکن حکومت نے اپوزیشن کے مطالبات تسلیم نہیں کیے۔
ایک معروف صحافی نے اپنے ایک کالم میں یہ اطلاع دی ہے کہ جب لندن میں نواز شریف صاحب کے فلیٹس کا ایشو سامنے آیا تو اس کے بعد سے جناب چودھری نثار وقتاً فوقتاً وزیر اعظم صاحب کو یہ مشورہ دیتے رہے کہ وہ جائداد بیچ کر اپنے بچوں اور کاروبار کو پاکستان منتقل کرلیں اگر نواز شریف صاحب یہ مشورہ مان لیتے تو آج صورت حال کچھ مختلف ہوتی۔
پاناما کیس سے متعلق جب 20اپریل کو عدالت عظمیٰ کا فیصلہ آیا تو وزیر اعظم اور ان کی ٹیم نے جشن منایا اور مٹھائیاں تقسیم کی گئیں، تین ججوں کی طرف سے جے آئی ٹی بنانے کے فیصلے کے حوالے سے سرکاری ٹیم اس خام خیالی کا شکار ہوگئی کہ اپنا ایف آئی اے، اپنا اسٹیٹ بینک، اپنا ایس ای سی پی، اپنی آئی ایس آئی اور اپنی ایم آئی کیوں کر وزیر اعظم کے خلاف فیصلہ دے سکتی ہیں، اسی لیے عمران خان نے جے آئی ٹی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ سرکاری ادارے کیسے شریف فیملی کے خلاف فیصلہ دے سکتے ہیں اور شیخ رشید نے تو اس کو جاتی امراء انویسٹی گیشن کا نام دیا تھا۔ یہاں پر یہ بات بھی سامنے آئی کہ ایک بار پھر نواز شریف کے مخلص دوست چودھری نثار نے مشورہ دیا کہ آرمی چیف کے ذریعے عدالت عظمیٰ سے درخواست کر کے جے آئی ٹی سے فوج کے ماتحت اداروں کو نکالنے کی استدعا کی جائے لیکن وزیر اعظم اور ان کے مشیروں کا خیال تھا بلکہ خوش گمانی تھی کہ فوج کے ساتھ چوں کہ تعلقات خوشگوار ہیں اس لیے ان اداروں کا رہنا ان کے حق میں بہتر رہے گا، یہاں بھی یہ تدبیر الٹ ثابت ہوئی کہ ملک کے صحاب الرائے لوگوں کا خیال ہے اداروں کی وجہ جے آئی ٹی کو شریف فیملی کے خلاف بڑے مضبوط ثبوت ملے ہیں۔ پھر کیا ہوا ایک معروف صحافی کے قلم سے نکلی ہوئی تحریر پڑھیے۔
’’اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ 29اپریل ڈان لیکس سے متعلق سرکاری نوٹیفکیشن جاری ہوا اور جواب میں مشہور زمانہ ٹویٹ سامنے آئی۔ اس سے فوج اور حکومت کے تعلقات خراب ہو گئے اور عدالت عظمیٰ کے حکم کے مطابق جے آئی ٹی کی تشکیل ان ہی دنوں میں یعنی 5مئی 2017 کو ہوئی۔ حکومت نے ٹویٹ کے معاملے پر کوئی درمیانی راستہ نکالنے کے بجائے اس کے ذریعے فوج کو بھرپور انداز میں زیر دباؤ لا کر راحیل شریف دور کے حساب کو برابر کرنے کی کوشش کی۔ چنانچہ 10مئی کو ٹویٹ واپس لے لیا گیا لیکن سول ملٹری تعلقات خراب سے خراب تر ہو گئے۔ اس تناظر میں جے آئی ٹی کی کارروائی اور اس پر حکومت کے اعتراضات جاری رہے اور پھر جے آئی ٹی کی وہ تاریخی رپورٹ سامنے آئی جسے بجا طور پر حکمران خاندان کے گلے کا طوق قرار دیا جاسکتا ہے۔ جس کا حتمی نتیجہ یہ نکلا کہ میاں نواز شریف بڑے بے آبرو ہو کر اپنے خاندان سمیت وزیر اعظم ہاؤس سے نکل رہے ہیں۔ حکومت معاملے کو پارلیمنٹ کے بجائے عدالت کے ذریعے نمٹانا چاہتی تھی اور کسی اور کی نہیں خود وزیر اعظم کی خواہش تھی کہ عسکری ادارے جے آئی ٹی میں شامل ہوں۔ اسے کہتے ہیں لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا۔‘‘
نواز شریف صاحب کے دامن میں ایمل کاسی اور ممتاز قادری کی بدعائیں ہی نہیں ہیں بلکہ انہوں نے خدا اور رسول جنگ کا بھی اعلان کیا ہوا ہے عدالت عالیہ نے اب سے کئی برس قبل ملک سے فوری طور پر سود کی لعنت ختم کرنے کا فیصلہ دیا تھا یہ نوازشریف ہی صاحب کی حکومت تھی جو اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ میں گئی وہاں اس فیصلے کو دیگر مقدمات کی طرح معلق کردیا گیا ہم عدالت عظمیٰ سے گزارش کریں گے وہ سود والی اپیل پر جلد اپنا فیصلہ سنائے۔