اہم قومی امور پر توجہ دینے کی ضرورت 

182

Edarti LOHپاکستان میں حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہے حکومت نے اپنے کام چھوڑ کر پاناما کیس کے دفاع میں ساری قوت جھونک دی اور بہت سے ایسے کام نہیں کئے جو اسے کرنے تھے۔ ان ہی میں سے ایک بھارت کے ساتھ آبی تنازع ہے۔ اس ہنگامے کے دوران عالمی بینک کے ساتھ مذاکرات بے نتیجہ ختم ہوگئے اور بھارتی سفارتی حکام نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ اسے عالمی بینک نے ڈیم بنانے کی اجازت دیدی ہے۔ عالمی بینک کے اعلان میں تو صرف یہی کہا گیا ہے کہ فریقین نے تعاون کے ماحول میں بات چیت کی اور ستمبر میں واشنگٹن میں دوبارہ مذاکرات پر اتفاق کیا ہے۔ تاہم بھارتی میڈیا کے دعوے پر پاکستان کی جانب سے ٹھوس جواب دینے کے لیے کوئی وزیر موجود نہیں کیونکہ اس وقت تک کابینہ تشکیل نہیں پاسکی تھی۔ بظاہر یہ محض بھارتی میڈیا کا دعویٰ ہے لیکن پاکستانی حکمرانوں کا اس حوالے سے ریکارڈ خراب ہے۔ 71 کی پاک بھارت جنگ کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان شملہ میں ہونے والے معاہدے کے حوالے سے بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان کشمیر کو بھارت کے حوالے کرنے پر راضی ہوگیا ہے۔ اس پر کچھ دن تک تردید بھی ہوتی رہی اور پھر خاموشی چھا گئی۔ طویل خاموشی کے بعد اب بھارت یہ دعویٰ کرتا ہے کہ پاکستان تو کشمیر کو دو طرفہ تنازع تسلیم کرچکا اور اسے اقوام متحدہ میں نہ اٹھانے سے بھی اتفاق کرچکا ہے۔ کبھی کبھی پاکستانی حکمرانوں کو کشمیر کا بخار چڑھتا ہے لیکن کوئی ٹھوس قدم جنرل ضیاء، جنرل پرویز، بے نظیر بھٹو یہاں تک کہ میاں نواز شریف نے نہیں اٹھایا۔ اسی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پاکستان اپنے دریا بھی ایوب خان کے دور میں بھارت کے حوالے کرچکا ہے۔ لہٰذا بھارتی میڈیا کے دعوے کو یوں ہی نہ جانے دیا جائے، لیکن مشکل یہ ہے کہ پاکستان میں بھارتی وزیراعظم کے اس حکم کا جواب دینے والا کوئی وزیراعظم ہی موجود نہیں۔ پاکستان کے حکمرانوں اور مقتدر طبقات کو تو اس کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہئے۔ بھارت کشن گنگا اور راتلہ کے مقام پر ڈیم بنارہا ہے اس کے نتیجے میں پاکستان میں پانی کے بہاؤ میں کمی ہوسکتی ہے جبکہ بھارت میں پانی زیادہ آنے کی صورت میں وہ ڈیم سے زیادہ پانی چھوڑ دے گا جس پر پاکستان میں اچانک سیلابی کیفیت پیدا ہوجائے گی۔ اس قسم کے ڈیم بننے سے پاکستان ضرورت کے وقت پانی محروم ہوگا اور جب ضرورت نہیں ہوگی اس وقت پانی ہی پانی ہوگا۔