رسہ کشی نے دو دن ضائع کر دیے 

250

Edarti LOHاسے میاں نواز شریف صاحب کی بدقسمتی کہا جائے یا شاہد خاقان عباسی کی کہ 45 روز میں 45 ماہ کا کام کرنے کا دعویٰ کرنے کے بعد ان کا پہلا دن ہی ضائع ہوگیا۔ مسلم لیگ روایتی مسلم لیگ بن گئی اور وزارتوں کے جھگڑے کی وجہ سے کابینہ کی تشکیل نہ ہوسکی۔ عبوری وزیراعظم کے سامنے کئی چیلنجز تھے لیکن انہوں نے ان کو چھوڑ کر نئے محاذ کھولنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ کچھ محاذ انہوں نے کھولے اور کچھ روایتی مسلم لیگ نے وزارتوں پر کھول دیے۔ دو روز تک مسلم لیگ عجیب مخمصے میں رہی۔ چودھری نثار عبوری وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے ماتحت کام کرنے کو تیار نہیں اور انہیں یہ کرنا بھی نہیں چاہیے، وہ نواز کابینہ میں شاہد خاقان عباسی سے بہتر پوزیشن پر تھے۔ اسی طرح اسحق ڈار کی پوزیشن بھی یہی ہے، بہانے خواہ کچھ بھی ہوں لیکن مسائل یہی ہیں کہ جمہوریت کے دیوانے جمہوری اصول کے مطابق کسی کو بھی وزیراعظم تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ پتا نہیں کس طاقت نے اچانک یہ فیصلہ کرا دیا کہ سابق کابینہ ہی برقرار رہے گی کوئی تو ہوگا۔بات صرف چودھری نثار یا اسحق ڈار کی ہی نہیں بلکہ بہت سے وزرا محض اس لیے کابینہ میں شامل نہیں کیے جارہے تھے کہ ان کے پاس اقامہ ہے۔ اقامہ الگ مصیبت بن گیا ہے، حالاں کہ میاں نواز شریف اقامے کی بنیاد پر نہیں بلکہ تنخواہ چھپانے کے الزام میں نااہل قرار دیے گئے ہیں۔ لیکن پاکستان میں قوانین اسی طرح بنائے جاتے ہیں فیصلے اسی طرح کیے جاتے ہیں۔ جنرل پرویز پر ایک مبینہ قاتلانہ حملے میں پیٹرول پمپ سے سوزوکی روانہ ہونے کی کہانی خفیہ اداروں نے چلائی۔ اور پھر پورے ملک میں جنرل پرویز کی نقل و حرکت کے وقت سوزوکی اور پیٹرول پمپ بند کیے جانے لگے، اب وی آئی پی موومنٹ کے وقت ایسا نہیں ہوتا۔ شاید دہشت گردوں نے طریقہ بدل لیا ہے۔ شاہد خاقان عباسی کے لیے یہ مرحلہ مزید مشکل اس لیے بھی رہاکہ شہباز شریف کے لیے پنجاب ایک کھیل بن گیا ہے وہ اسے چھوڑنا چاہیں تو بھی نہیں چھوڑ پارہے۔ کہا تو یہ جارہا ہے کہ پنجاب پر گرفت کمزور ہوجانے کا خدشہ ہے لیکن ان کے لیے بھی کئی مسائل ہیں۔ فیصلہ ساز قوتوں سے معاملات کس حد تک طے ہوتے ہیں کہ ضمنی انتخاب میں شہباز شریف بھی اتنی ہی قوت سے جیت سکیں، جتنی طاقت سے میاں نواز شریف جیتتے تھے ایک خدشہ بہرحال شہباز شریف صاحب کے ساتھ لگا رہے گا کہ اگر وہ ہار گئے تو پنجاب کی وزارت علیا بھی گئی اور وزارت عظمیٰ بھی۔ اس وقت یہ بھی پتا چل جائے گا کہ میاں نواز شریف نے جس فرد پر اعتماد کرکے 45 روز کے لیے وزیراعظم بنایا ہے وہ اس وقت کیا رویہ رکھیں گے۔ یہ خدشہ بھی مسلم لیگ کی مرکزی قیادت کے سامنے ہے۔ شہباز شریف کے حوالے سے یہ بیان تو گشت کر ہی رہا ہے کہ مقتدر حلقوں سے مصالحت کرنی ہے تو چودھری نثار کو مستقل وزیراعظم بنایا جائے۔ چودھری نثار اب تک تو کوئی منصب نہ لینے کے دعوے پر قائم ہیں لیکن ’’ملک کے بہترین مفاد‘‘ اور جمہوریت کے استحکام کے لیے وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونے کو تیار ہوسکتے ہیں۔ ابھی تو پہلے دو روز ہی گزرے ہیں، 45 روز بعد کے حالات کیا ہوتے ہیں یہ ابھی سے نہیں کہا جاسکتا لیکن مسلم لیگ کے روایتی انتشار کے تناظر میں اس بات کے خدشات بھی ہیں کہ 45 روز بعد شاہد خاقان عباسی کی سبکدوشی بھی مسئلہ بن جائے۔ کیوں کہ وہ اتنے ہلکے آدمی نہیں کہ کھوسہ کی طرح چند روزہ وزارت علیا پر اکتفا کرکے بیٹھ جائیں۔ 45 روز تو انہیں اپنی صلاحیتوں کے جوہر منوانے کے لیے کم پڑیں گے۔ چودھری نثار کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی بھی یہی چاہتی تھی کہ چودھری نثار عبوری کابینہ میں نہ آئیں، اگرچہ یہ مشورہ دینے والے نہایت نچلے درجے کے پیپلز پارٹی رہنما ڈاکٹر عاصم حسین ہیں جو خود مضبوط بنیادوں پر استوار نہیں، وزارت داخلہ پاکستان سے بھی ان کو بہت سے مسائل حل کروانے ہوں گے۔ بہر حال عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد ملک کو جو بحران درپیش ہونا تھا وہ ہوچکا۔ سات روز تک ملک حکومت اور وزرا سے محروم رہا۔ اگرچہ پاکستان کا نظام سیکریٹریوں کے بل پر چلتا ہے لیکن بعد میں ان سیکریٹریوں کے فیصلوں کا بوجھ کون اُٹھائے گا۔ عدالت عظمیٰ کو فیصلے کے ساتھ ساتھ نگراں سیٹ اپ کی جانب بھی رہنمائی کرنی چاہیے تھی۔ وزارتوں کے لیے رسہ کشی نے پاکستان کے ابتدائی ایام میں بھی قومی استحکام کو نقصان پہنچایا تھا۔ آج کل بھی جس قسم کی سیاست ہورہی ہے وہ نہ صرف ملکی استحکام کے لیے خطرناک ہے بلکہ جگ ہنسائی کا سبب بھی بن رہی ہے۔