بزنس کانفرنس اور سی پیک

250

zc_Rizwan-Ansariپچھلے ہفتے محمد علی جناح یونیورسٹی کراچی میں ایک بزنس ریسرچ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس کا ایک مقصد تو ملک کے اہم معاشی اور کاروباری معاملات کو زیر بحث لانا تھا، دوسرے یونیورسٹی کے طلبہ اور اساتذہ کی تحقیقی سرگرمیوں کو اُجاگر کرنا اور بہتری لانا مقصود تھا۔
کانفرنس کا مرکزی موضوع ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ تھا جس کا تعلق پاکستان میں چین کے تعاون سے ہونے والے کھربوں روپوں کے منصوبے سی پیک (CPEC) سے ہے اور یہ موضوع منتخب کرنے کا مقصد یہی تھا کہ ملک میں جہاں حکومت کی جانب سے سی پیک کے بارے میں بہت خوش آئند اور اُمید افزا باتیں کی جارہی ہیں جب کہ دوسری طرف کچھ کاروباری حلقوں اور تجزیہ کاروں کی جانب سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے اس سلسلے میں سیر حاصل بحث کی جائے اور یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کو تمام پہلوؤں سے آگاہ کیا جائے۔
افتتاحی اجلاس کے مہمان خصوصی وفاقی ایوان ہائے صنعت و تجارت پاکستان کے صدر زبیر طفیل نے چینی معیشت، سی پیک منصوبے اور گوادر پورٹ پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ چینی قیادت نے اپنے ملک کی معاشی ترقی اور عوام کی حالت بہتر بنانے کے لیے طویل مدتی منصوبے پر کام کیا اور پچیس تیس سال اِن منصوبوں پر کام کرتے رہے، اس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ تین عشرے پہلے چین کی فی کس آمدنی تقریباً 700 امریکی ڈالر تھی اور وہ ایک پسماندہ ملک تھا آج وہ آمدنی 8000 امریکی ڈالر ہوگئی ہے اور چینی مصنوعات دُنیا کے کونے کونے میں پہنچی ہوئی ہیں۔ اس کے بعد چین نے شنگھائی تعاون کونسل کے فیصلوں کی روشنی میں خطے کے پڑوسی ممالک میں معاشی ترقی اور ذرائع مواصلات کو بہتر بنانے کا کام شروع کیا۔ سی پیک جس کا پاکستان میں بہت شہرہ ہے یہ اس مجموعی منصوبہ بندی کا حصہ ہے اور وہ منصوبہ بندی 2 کھرب ڈالر کی خطیر رقم پر مشتمل ہے جو 2016ء سے لے کر 2020ء تک چین کے تیرہویں پنج سالہ منصوبہ (13 fifth year plan) میں شامل ہے۔ اس میں 15 ہزار کلو میٹر کی ریلوے لائن میں اضافہ، 50 لاکھ کلو میٹر سڑکیں، 260 ائر پورٹس اور بندرگاہوں پر سمندری جہازوں سے سامان اتارنے کے لیے 2527 برتھیں شامل ہیں۔
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سی پیک جس کی مالیت اب 60 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے چینی منصوبے کا چھوٹا سا حصہ ہے جب کہ چین اپنے ذرائع مواصلات اور ٹرانسپورٹیشن کو وسطی ایشیا سے لے کر ترکی اور یورپ تک لے جانا چاہتا ہے۔
جب سی پیک کی بات ہوتی ہے تو گوادر کا ذِکر بھی آتا ہے اس کا تاریخی حوالہ دیتے ہوئے یہ باتیں سامنے آئیں کہ پاکستان نے 1958ء میں اس خطے کو سلطنت مسقط و عمان سے خریدا تھا اور یہ مچھیروں کا ایک گاؤں تھا جب کہ یہ ایک گہرے پانی کی بندرگاہ ہے پاکستان میں مختلف سیاسی اور فوجی حکوتیں آتی رہیں لیکن 2001ء تک کسی نے اس پر توجہ نہ دی، بندرگاہ کو ترقی دینے کا پہلا مرحلہ 2007ء میں مکمل ہوا جس کا افتتاح پرویز مشرف نے کیا، اس وقت اس بندرگاہ کا انتظام چائنا اوورسیز پورٹ ہولڈنگ لمیٹڈ کے پاس ہے اور چین کی دلچسپی کی وجہ یہ ہے کہ خلیج فارس سے چین تک آئل کی ترسیل کا فاصلہ 16000 کلو میٹر ہے جس میں 2 سے 3 ماہ لگتے ہیں۔ جب کہ گوادر پورٹ کو استعمال کرنے سے یہ فاصلہ صرف 5000 کلو میٹر رہ جائے گا۔
زبیر طفیل نے اس اندیشے کو غلط قرار دیا کہ سی پیک منصوبوں کی وجہ سے چینی مزدوروں کی آمد بڑھ جائے گی۔ چین میں اجرتیں زیادہ جب کہ پاکستان میں کم ہیں اس لیے تمام چینی منصوبوں کے لیے پاکستانی محنت کش زیادہ موزوں ہیں اور اعداد و شمار کے مطابق سی پیک منصوبوں پر 30 ہزار سے زائد پاکستانی اور 8 ہزار چینی ورکرز اور انجینئرز کام کررہے ہیں اور پلاننگ کمیشن آف پاکستان کے مطابق 2030ء تک مقامی افراد کو 8 لاکھ ملازمتوں کے مواقعے ملیں گے۔
پاکستانی معیشت کا ذکر آیا تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ پاکستان میں 80 فی صد کاروبار چھوٹے اور درمیانی کاروباری یونٹوں پر مشتمل ہے جب کہ پاکستان کی آبادی کا 60 فی صد نوجوانوں پر مشتمل ہے جو اپنی صلاحیتوں اور تعلیم کے ذریعے چھوٹے کاروبار شروع کرسکتے ہیں اور معاشی سرگرمیوں میں چھوٹے کاروبار کا بڑا حصہ ہے لیکن اس سلسلے میں صنعت کاروں اور تاجروں کی یہ ذمے داری ہے کہ تعلیمی شعبے کا کاروبار اور صنعت و حرفت سے اشتراک سے قائم کریں۔ دنیا میں اس اشتراک کی مثالیں موجود ہیں کہ ایک طرف کارخانے دار اپنی آمدنی کا 0.5 سے لے کر ایک فی صد یونیورسٹیوں کو ادا کرتے ہیں جب کہ ان یونیورسٹیوں کے طلبہ کارخانوں میں جا کر پیداواری سرگرمیوں کا جائزہ لیتے ہیں اور ان کے مسائل پر تحقیق کرکے ان کے حل پیش کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں محمد علی جناح یونیورسٹی کے صدر پروفیسر ڈاکٹر زبیر احمد شیخ نے زبیر طفیل کے ساتھ ایک سمجھوتا قائم کرنے کی پیش کش کی مگر زبیر طفیل اس کے لیے تیار نہ ہوئے۔ اس سے پاکستان کے کاروباری افراد کی سوچ کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کاروباری معاملات میں تحقیق و ترقی کا کردار قبول کرنے کو تیار نہیں۔
بزنس کانفرنس میں اس کے علاوہ ایم ایس اور پی ایچ ڈی کے طلبہ نے اپنے تحقیقی مقالے پیش کیے جنہیں کراچی کے نمایاں تعلیمی شعبے کی شخصیات نے تنقیدی اور تجزیاتی نظروں سے جانچا۔ اسی طرح کراچی کی مختلف یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور طلبہ نے اپنی تحقیقی نگارشات پیش کیں۔ راقم نے بھی معاشی ترقی اور انفرااسٹرکچر کے موضوع پر طلبہ و اساتذہ کے سامنے اپنی تحقیق پیش کی اور یہ بات ثابت کی کہ معاشی ترقی کے لیے انفرااسٹرکچر کی بہتری لازم وملزوم ہے۔
دیکھتے ہیں پاکستان میں تعلیم و صحت، قانون و عدالت اور امن وانصاف کے شعبوں میں کب بہتری آئے گی۔