فلک ناز سٹی کے معاملات کی چھان بین کرائی جائے

151

ایم اے جناح روڈ اور آئی آئی چندریگر روڈ کے درمیان تالپور روڈ پر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (اوورسیز) کے عین مقابل ایک کثیر المنزلہ عمارت زیر تعمیر ہے جس کا پہلے نام فلک کارپوریٹ سٹی تھا، ابتدا میں یہ خالصتاً کمرشل منظور ہوا تھا پھر اچانک بلڈرز نے اس کا نام تبدیل کرکے اسے کمرشل اور رہائشی تشہیر کرنا شروع کردیا۔ اب اس کا نام فلک سٹی ٹاور ہے اور ساتویں منزل سے فلیٹ بننا شروع ہوگئے ہیں۔ ابتدائی نقشے کے مطابق بلڈر گراؤنڈ فلور سے نماز اور واش روم کی جگہ کھا چکا ہے۔ میز نائن پر پوری کی پوری پارکنگ کی جگہ پر دکانیں بن چکی ہیں، بلڈنگ کا موجودہ نقشہ یکسر تبدیل کردیا گیا ہے، تعمیر شدہ حصے میں حفاظتی اقدام کے لیے کوئی انتظام موجود نہیں ہے۔ کثیر المنزلہ عمارت کے حساب سے سیوریج کا کوئی انتظام نہیں ہے، ایمرجنسی آمدورفت کوئی نہیں رکھی جارہی ہے۔ علاقے میں پانی کی قلت ہے اور سیوریج لائنیں اپنی مدت پوری کرچکی ہیں۔ اُس کے باوجود یہاں پر فلیٹ بنائے جارہے ہیں۔ یہ کے ڈبلیو ایس بی کے لیے سوالیہ نشان ہے کہ بلڈر کو کیسے اور کیونکر این او سی جاری ہوا۔ دنیا جانتی ہے کہ اس ادارے میں داخلے کے لیے ہر قدم پر نذرانہ چلتا ہے، سندھ سرکار سے خیر کی اُمید رکھنا چنے کے پودے سے آم کی اُمید رکھنا جیسا ہے۔ پھر بھی ایک مذموم اُمید کے ساتھ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سے اپیل ہے کہ فلک سٹی ٹاور کے معاملات کی چھان چھین کروائیں۔
حاجی عبدالکریم جاوڑہ والا، میرٹ روڈ، کراچی