گلالئی عمران کے گلے کی ہڈی

197

zc_Muzaferگلالئی عمران خان کے گلے کی ہڈی بن گئیں نہ اگلی جائیں نہ نگلی جائیں۔ اس شر کو بڑھاوا دینے کا کام وہ لوگ کررہے ہیں جن کا کاروبار ہی اب اس قسم کی خبروں پر چلتا ہے۔ کسی کو بریکنگ نیوز چاہیے، کسی کو ریٹنگ چاہیے لیکن ایک نہایت خطرناک اور افسوسناک رویہ اس آڑ میں ہمارے معاشرے میں سرایت کرتا جارہا ہے۔ پی ٹی آئی کی رکن قومی اسمبلی عائشہ گلالئی نے جو الزامات عمران خان پر لگائے ہیں ان کی تحقیقات اس بنیاد پر تو ضرور ہونی چاہیے کہ عمران خان ایک بڑی سیاسی جماعت کے قائد ہیں خود دوسروں کا احتساب کررہے ہیں، سیاسی رہنماؤں سے تلاشیاں طلب کررہے ہیں تو ان کو بھی الزام کا سامنا کرنا چاہیے۔ اب وہی پوزیشن عمران خان کی بھی ہے جو میاں نواز شریف کی تھی۔ وہ نواز شریف سے الزام کے نتیجے میں استعفے کا مطالبہ کررہے تھے۔ اب ان سے کوئی یہ مطالبہ کرے تو کیا وہ استعفا دیں گے۔ بہرحال عمران خان کیا کریں گے اور کیا نہیں کریں گے اس کا تعلق تو سیاسی حکمت عملی سے ہے اور بظاہر انہوں نے اور ان کی پارٹی نے اس الزام کی تحقیقات ہی کرانے کی بھرپور مخالفت کی ہے ممکن ہے زور دار دفاع کے نتیجے میں وہ کسی قسم کی تحقیقات سے بچ جائیں لیکن جو کیفیت میڈیا کی ہے اس نے اپنا منجن بیچنے کا موقع ضائع نہیں کیا۔ ہر ٹی وی چینل کو ایسی دلچسپ کہانی کئی روز کے لیے درکار ہوتی ہے یہ سلسلہ امریکا اور یورپ میں عام ہے لیکن اب ٹی وی چینلوں کی بھرمار نے اسے پاکستان میں پہنچادیا ہے۔ ابتدا میں یہ سیاستدانوں اور سرکاری افسران کے اسکینڈلز پر مشتمل رپورٹس کی بنیاد پر ریٹنگ بڑھارہے تھے لیکن ایان علی اسکینڈل کے بعد سے میڈیا اصل ایجنڈے پر آگیا ہے اور اصل ایجنڈا صحیح و غلط کی تمیز ختم کرنا ہے۔ اچھائی بُرائی، مرد و خواتین، مخلوط جلسوں وغیرہ کے حوالے سے کوشش یہ کی جاتی ہے کہ اسے اتنا رنگین اور پُرکشش بنا کر پیش کیا جائے کہ ہر کوئی اپنے جلسوں کو بارونق بنانے پر غور کرنے لگے۔ اچھے اچھے اقدار پرست بھی کچھ تو ہونا چاہیے کے عنوان سے اپنے سیاسی جلسوں میں کوئی رنگ ڈالنا چاہتے ہیں۔
ایان علی اسکینڈل کو صرف ایان علی نے طول نہیں دیا، یہ میڈیا کی ضرورت تھی اس میں سیاسی جماعتوں، حکومت، میڈیا اور عدلیہ کے نظام نے بھرپور معاونت کی اور کئی ماہ تک یہ سلسلہ چلا۔ ایک ماڈل پر 5 لاکھ ڈالر غیر قانونی طور پر ملک سے باہر لے جانے کا الزام اس کے پاس یہ رقم برآمد ہوئی، رقم پکڑنے والا کسٹمز آفیسر قتل ہوا، مقدمہ طول پکڑتا گیا اور ایجنڈا پورا ہوتا گیا۔ بار بار الیکٹرونک میڈیا پر اس کی پیشی کے موقعے پر فلمی گانے چلائے جاتے رہے۔ ایسا تاثر دیا جاتا رہا جیسے ملزمہ نہیں کوئی سیاسی لیڈر ہے کوئی شادی ہونے جارہی ہے۔ کوئی فیشن شو ہے، یہ مقدمہ لپیٹا گیا تو مختصر عرصے کے لیے ایک دو خواتین کے پی ٹی آئی چھوڑنے کے واقعات اُچھلے۔ لیکن اب جو واقعہ سامنے آیا ہے گلالئی کا۔ یہ زیادہ دن چلنے کا امکان ہے اب اس کی تصویریں، پریس کانفرنس، تبصرے اور سوشل میڈیا تو الگ بے لگام چیز ہے۔ جو کچھ اس پر چل رہا ہے وہ بھی اس سارے طوفان بدتمیزی کو فروغ ہی دے رہا ہے۔ اس حوالے سے ہم تو عمران خان کو یہی مشورہ دیں گے کہ اس معاملے کو جلد از جلد ختم کریں، ایک تو اس کی وجہ سے خود ان کی پوزیشن خراب ہورہی ہے، دوسرے یہ کہ ان کے اس اسکینڈل سے پاکستانی معاشرہ متاثر ہورہا ہے۔ ہمارا میڈیا تو اب گلالئی کو ایان علی II یا III بنانے پر تلا ہوا ہے۔ تصویریں، بیانات اور الزامات کی بھرمار ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی بھی اسی ایجنڈے کی ہمنوا ہے اس لیے تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیٹی یا بند کمرے کے اجلاس کی تجاویز مسترد کردی ہیں۔ گویا وہ بھی چاہتے ہیں کہ پوتڑے چوک پر ہی دھلتے رہیں۔
ایک اور پہلو قابل توجہ ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما نعیم الحق نے ایک پیغام کے حوالے سے کہا ہے کہ میرا اکاؤنٹ تھوڑی دیر کے لیے ہیک ہوگیا تھا۔ واہ کیا دلیل دی گئی ہے یعنی ایسے خاص وقت کے لیے اکاؤنٹ ہیک ہوا تھا جس میں عائشہ گلالئی کو پیغام بھیجا گیا۔ یہ ان کا اعتراف ہے کہ پیغام ان کے اکاؤنٹ سے ہی گیا تھا۔ یعنی پاکستانی عوام ایسے رہنماؤں اور پارٹی پر کس طرح اعتماد کرسکتے ہیں جو اپنا سوشل میڈیا اکاؤنٹ سنبھال کر نہیں رکھ سکتے۔ اگر کل ان کے پاس پاکستان ہو تو کیا اسے سنبھال سکیں گے یا تھوڑی دیر کے لیے پاکستان بھی ہیک کروا کر معذرت کرلیں گے۔ بھائی سنبھال نہیں سکتے تو اکاؤنٹ بناتے کیوں ہو۔