بادشاہ گر اور بازی گر۔۔۔ 

284

مظفر ربانی
انسانی سماج، اور ریاست کی معلوم تاریخ میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جو کسی نظریہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا اور وہ بھی اسلام کے نام پر کہ یہاں پر قائم ہونے والی حکومت دنیا کے سامنے اسلام کا عملی نمونہ پیش کرے گی اور یہ ثابت کرے گی کہ اسلام آج بھی اتنا ہی ترو تازہ ہے جتنا کہ مدینے کی اسلامی ریاست کے وقت تھا اور اس کا ہر ہر گوشہ ایسا ہی شگفتہ ہے جیسا کہ اس وقت تھا۔ لیکن بد قسمتی سے اس ملک کی باگ ڈور اقتدار کی رسہ کشی اور حرص و ہوس نے ایسے ہاتھوں میں دے دی جو ملک وقوم حمیت اور حریت کے احساس سے بالکل نابلد تھے اور ستر سال کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اس کی ابتدا کہاں سے ہوئی۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس کی ابتدا قائد اعظم کو زیارت کی زیارت کے لیے بھیج دینے سے کی گئی تو غلط نہ ہوگا کیوں کہ اس کے بعد تو کوئی سرکاری مریض زیارت نہیں گیا۔ قائد اعظم ہی کیوں بھیجے گئے حالاں کہ ان کو علاج کی غرض سے لندن یا نیو یارک بھیجا جاتا تو بات سمجھ میں بھی آسکتی تھے کہ چلو اس ملک پر جو لوگ حکمراں ہیں وہ نہ صرف قائداعظم سے مخلص ہیں بلکہ ملک کے بھی بہی خواہ ہیں مگر قائد اعظم زیارت کے پہلے اور آخری مریض ثابت ہوئے۔ اس حقیقت کو جاننے کے لیے کہ ان بازی گروں اور بادشاہ گروں نے اس ملک کے ساتھ کھلواڑ کب سے شروع کیا؟ اس وقت کے مدبرین، اکابرین، سیاسی و مذہبی رہنماؤں کے مضامین واعظ وغیرہ کا مطالعہ کرنے سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ کھیل تو پاکستان بننے کے اگلے روز سے ہی شروع ہو چکا تھا اور وہ دن اور آج کا دن ہے قوم ابھی تک کسی مسیحا کی منتظر ہے۔
ملک کا دفتری نظام ہو یا عدالتی نظام، تعلیمی نظام ہو معاشی نظام، اقتصادی نظام ہو الغرض کوئی بھی محکمہ ایسا نہیں کہ جس کا کو ئی واضح نظام بنایا جا سکا ہو۔ ہر ادارے میں وقتی اور وقت گزاری کا نظام چل رہا ہے یہاں تک کہ انتخابی نظام بھی زبوں حالی کا شکار ہے۔ دنیا کے ہر ملک میں انصاف سے لیکر معیشت تک ہر ہر ادارے کے واضح طور طریقے نافذ ہیں اور کسی کی مجال نہیں کہ کسی کے بھی کہنے سے ان سے انحراف کر سکے، یہاں سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ ہر طاقت ور اپنی طاقت کا استعمال قانون شکنی کے لیے ہی کرتا ہے مجرم کو چھوڑنے کے لیے ’’اوپر‘‘ سے احکامات آ جاتے ہیں یہ ’’اوپر‘‘ کا جن شاید ہمارے جیسے ملکوں میں ہی پایا جاتا ہو وگرنہ مشرق وسطیٰ سے لیکر مغرب اور مشرق بعید سے لیکر مغرب بعید تک کہیں بھی یہ کلچر ڈھونڈنے سے نہیں ملتا۔ جب تک ’’اوپر‘‘ کے جن کو قابو نہیں کیا جاتا اس وقت تک نہ اس ملک سے کرپشن ختم ہو سکتی ہے اور نہ بد انتظامی۔ اگر اس مصیبت سے جان چھڑانی ہے تو سب سے پہلے تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز کو بحال کرنا پڑے گا اور یہ کوئی بہانہ نہیں چلے گا کہ تعلیمی اداروں میں ماردھاڑ اور قتل و غارت گری ہوتی ہے۔ اس لیے تعلیم امن کے نام پر تعلیمی اداروں میں یونینز بحال نہیں ہو سکتیں۔ چھتیس قسم کی امن بحالی کے نام پر قائم ایجنسیاں کیا کر رہی ہیں کیا وہ تعلیمی اداروں میں بھی امن بحال کرنے سے قاصر ہیں عوام کے پیسوں سے تنخواہیں لینے والے عوام کو تعلیمی اداروں میں بھی امن پہنچا سکتے تو ان کا بے رحمانہ احتساب وقت کی اشد ضرورت ہے اگر احتساب اور امن کی بحالی کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا تو دور حاضر کے چیلنجوں سے نمٹنے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا اور یہ کہ قوم کو مختلف رنگ کے ٹرکوں کی بتیوں کے پیچھے لگانے کی ضرورت نہیں۔ کبھی دہشت گردی کا ہوا کھڑا کر دیا، کبھی مختلف قسم کے آپریشنوں سے قوم کو بہلایا گیا، کبھی نام نہاد زرعی اور صنعتی انقلابات کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا اور آج کل سب سے بڑے ٹرک یعنی سی۔ پیک کی بتی کے پیچھے قوم کو لگایا ہوا۔
حیرت ہے کہ سینیٹ کا چیئرمین بھی یہ کہہ رہا ہے کہ وہ بھی طلبہ یونین کی بحالی کے حق میں ہے وہ ایسے ادارے کی کرسی پر بیٹھا ہے جہاں سے قانون کا سکہ ڈھل کر نکلتا ہے اس کے ہاتھ کس نے باندھے ہوئے ہیں، قوم آج جس سیاسی قیادت کے بانجھ پن کا شکار ہے اس کی بنیادی وجہ طلبہ تنظیموں پر پابندی ہے کیوں کہ تعلیمی اداروں میں ہی طلبہ کی سیاسی تربیت ہوتی ہے طریقہ انتخاب سے لیکر سیاست کی سمجھ بوجھ تک ہر طرح کی تربیت لیکر جب ایک طالب علم عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے تو وہ اپنے نظریات کی بنیاد پر رکھتا ہے کہ کون سی سیاسی جماعت میں وہ اپنی جگہ بنا سکتا ہے اور جو طلبہ اپنی اپنی جماعتوں سے وابستہ ہوتے ہیں ان جماعتوں کو پڑھی لکھی قیادت ہمہ وقت دستیاب ہوتی ہے اور ہر پانچ سال پر دوسری اور تیسری سطح کی قیادت موجود ہوتی ہے جس سے سیاسی نظام آگے بڑھتا رہتا ہے اور اقتدار کی دہلیز پر قدم رکھ کر اب یہ سیاسی کارکن سمجھتا ہے کہ اس کی دس پندرہ سال کی تربیت کے طفیل قوم کی خدمت کا وقت آ گیا ہے اس کا ذہن بھی کرپشن کی طرف نہیں جا سکتا کیوں کہ اب اس کو اپنے سیاسی جوہر دکھانے کا موقع ملا ہے تو اپنی جماعت کے ساتھ ساتھ قوم کی خدمت کا جذبہ عروج پر ہوتا ہے۔ موجودہ سیاسی جماعتوں کی ابھی تک بقا اسی بنیاد پر ہے کہ ان میں پچھلی صدی کے بچے کھچے طالب علم رہنما موجود ہیں۔ جب تک سیاسی جماعتوں میں طلبہ تنظیموں سے قیادت فراہم ہوتی رہی سیاست میں کرپشن کا کوئی وجود نہیں تھا اور سیاست میں نظریات کے جو رنگ بکھیرے ہوئے تھے اس سے ملک کی سیاست کو چار چاند لگ جاتے تھے اور سیاسی رکھ رکھاؤ مدبرانہ بیانات فہم و دانش کھل کر اپنے جوہر دکھاتی تھی ایک نظریاتی سیاست اور چھانگا مانگا کی سیاست کا فرق صاف نظر آتا ہے، یہ ممکن نہیں کہ مقتدر حلقوں کو کسی کی کرپشن نظر نہیں آرہی ہوتی لیکن ان کو ڈھیل دی جاتی ہے اور جب بازی پلٹنے کا وقت آتا ہے تو کرپشن کے الزامات لگا کر ان کی چھٹی کر دی جاتی ہے، پہلے ہاتھ کیوں نہیں پکڑا جاتا۔
یہاں ایک اور بلکہ سب سے گمبھیر مسئلہ بین الاقوامی این جی اوز کا ہے جو باہر سے ایجنڈا لا کر ہمارے سروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرتی ہیں پاکستان کے قوانین کے مطابق کوئی سیاسی جماعت بیرون ملک سے فنڈنگ نہیں کر سکتی لیکن باہر کے اشاروں پر چلنے والی این جی اوز بیرونی فنڈنگ کر سکتی ہیں اور وہ پیسے کے بل بوتے پر قوانین پر تک ہاتھ صاف کرنا چاہتی ہیں جیسا کہ میاں شہباز شریف فرما رہے تھے کہ ہم کیا کریں این جی اوز ہم کو فنڈ دیتی ہیں تو ان کی پالیسیاں بھی تعلیمی اداروں میں نافذ کرنا پڑتی ہیں حکمرانوں کی ذہنی پستی کا یہ عالم ہے۔ اس ملک میں نہ سرمایہ کی کمی ہے نہ سرمایہ داروں کی مگر ان کی ترجیحات قوم کے مفاد میں نہیں ہیں اگر سرمایہ صنعتی ترقی میں لگایا جائے تو بیروزگاری اور افراط زر کے خاتمے میں بڑی مدد مل سکتی ہے اس طرح ملک کے زرمبادلہ میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہو سکتا ہے مگر ہمارے سرمایہ داروں کی ترجیحات ہاؤسنگ اسکیمیں ہی ہیں ان پر کھربوں ڈالر خرچ کر کے مزید کھربوں ڈالر کما لیں اس طرح تو افراط زر اور ارتکاز دولت کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ یہ خیال بھی درست نہیں کہ بیرون ملک سے آنے والے اربوں ڈالر وں سے ترقی ہوتی ہے نہیں بلکہ اس سے افراط زر میں اضافہ ہوتا ہے جو مہنگائی کا بڑا سبب ہے اس دفعہ قوم کو انصاف کا جھانسا دیا جا رہا ہے جیسے ماضی میں بھٹو نے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا تھا پھر جو کچھ اس قوم کے ساتھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے نواز شریف کوبھی موٹر ویز کے جال اور ترقی کا جھانسا دے کر لایا گیا تھا اب عمران کو انصاف کی ڈگڈگی تھما دی گئی ہے اور وہ ہر جگہ انصاف کی ڈگڈگی بجاتے پھرتے ہیں مگر پوت کے پاؤں تو پالنے میں ہی نظر آ رہے ہیں، جب کہ مستند دہریے ان کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہوں!!!