کم از کم اجرت اور حکمرانوں کا رویہ

181

اختر عباس زیدی

خلافت راشدہ کا دوسرا دن تھا کہ جناب ابوبکرؓ اپنے کندھے پر کپڑے کے تھان لادے بازار کی جانب رواں دواں تھے کہ راہ میں عمرؓ بن خطاب مل گئے پوچھا کہاں چل دیے۔ کہا روزی روزگار کے لیے، مگر آپ تو امیر المومنین ہیں فرمایا تو کیا گھر کے لیے روزگار نہ کماؤں، پھر پوچھا کہ اگر آپ تجارت میں لگ گئے تو امور خلافت کا کیا ہوگا؟ اب معاملہ گمبھیر ہوگیا تھا چناں چہ انتہائی سوچ بچار اور باہمی مشورہ سے طے ہوا کہ خلیفہ کا تمام وقت امور خلافت کے لیے ہے لہٰذا گزر بسر کے لیے ملک میں انفرادی طور پر کم سے کم حاصل شدہ اجرت کے مساوی وظیفہ خلیفہ المسلمین کو دیا جائے گا یہ فیصلہ جناب حضرت ابوبکرؓ کی صوابدید پر کیا گیا جسے موجودہ دور میں صوابدیدی اختیار کہا جاتا ہے۔ صوابدیدی اختیار کی اس سے زیادہ واضح تشریح اور اس کے استعمال اس سے بہتر مثال تاریخ انسانی میں شاید ہی کہیں مل سکے۔
موجودہ دور کے مسلمان حکمرانوں کے لیے اس میں بھی ایک واضح سبق موجود ہے کہ حکمران اپنی رعایا کے مسائل کلّی واقفیت کے لیے ان غریبوں کے ہم پلہ معیار زندگی رکھیں تا کہ انہیں بھی معلوم ہو کہ سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجے کے نام پر کیا اور کیسے ملتا ہے۔ سرکاری اسکولوں میں تعلیم کے ساتھ کیا کھلواڑ ہورہا ہے، کس طرح مختلف مافیائیں غریب سے اس کی زندگی کا خراج وصول کررہی ہیں، کس طرح جبر و تشدد کے آگے مزدور بے بس ہے، کس طرح جب سیکڑوں مزدوروں کو زندہ جلا دیا جاتا ہے تو ان کے لواحقین پر کیا گزرتی ہے، کس طرح جوئے، سود اور قرض کی معیشت کے کھلاڑیوں کی خوشحالی محنت کشوں پر قہر بن کر نازل ہورہی ہے مگر حکمران طبقہ اس صورت حال کو اپنے مفاد سے آگے جاننے کو تیار نہیں، تا ہم یہ حکمران طبقہ عوامی نمائندگی کے نام پر وصول کیے جانے والے معاوضے کے لیے لاکھوں کے مشاہروں اور کروڑوں کی مراعات پر اپنا حق جتاتا ہے ان نام نہاد عوامی نمائندوں کو اپنی بھاری بھرکم تنخواہوں کے چیک وصول کرتے ہوئے اس لیے شرم آتی ہے کہ انہیں یہ رقم بہت معمولی معلوم ہوتی مگر مزدور کی کم از کم اجرت چند ہزار مقرر کرتے ہوئے کوئی شرم نہیں آتی۔ جی ہاں اس ملک میں مزدور کی کم از کم اجرت 14000 مقرر کی گئی ہے جو بجٹ کے موقعے پر دانشورانہ تبصرے کرنے والے معیشت دانوں کے لیے ہمیشہ ایک چیلنج رہا کہ وہ اس رقم میں ایک گھر کا بجٹ بنا کر دکھائیں۔ حالاں یہ کم سے کم طے شدہ اجرت بھی کہیں کہیں ہی مل رہی ہے وہ بھی تمام تر ملازمتی حقوق کے عوض۔
موجودہ حکومت کی قرض میں ملنے والی رقم پر جوئے اور سود پر مبنی معیشت کی عارضی و فرضی کامیابیوں کے اعداد و شمار جمع کرنے والے سامراج پرست اداروں نے کسی ایسے سروے کی زحمت ہی نہیں کی کہ کتنے فی صد مزدوروں کو حکومت کی مقرر کردہ کم سے کم اجرت کن شرائط پر مل رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اعداد و شمار کے ذریعے ملکی معیشت کو کامیابیوں اور خوشحالی کے سروے سامراج کی ایما پر کیے جاتے ہیں تا کہ بے خبر مزدور اپنی زندگی میں کبھی نہ آنے والی خوشحالی کو اپنے کچھ ہی فاصلہ پر محسوس کرتے ہوئے ہر ستم سے سمجھوتا کرتا رہے۔ ذرا نجی شعبے میں فیکٹریوں اور ملوں کا کھلی آنکھوں سے جائزہ لیا جائے تو سب کچھ نظر آئے گا جہاں بیش تر ملازمین یہ جانتے ہی نہیں کہ وہ کس کے ملازم ہیں، آیا اس فیکٹری یا مل کے جس میں وہ کام کرتے ہیں یا اس کنٹریکٹر کے جس نے انہیں بھرتی کیا ہے ان کنٹریکٹر کے مالکان اور گماشتے مل کر مزدوروں کے حالات کا سخت سے سخت بناتے ہیں کہ ان کی روزی روٹی کی بنیاد ہی جبر و تشدد ہے، ان کنٹریکٹرز کو عام زبان میں ٹھیکیدار کہا جاتا ہے چناں چہ مزدور تنظیمیں ٹھیکیداری نظام سے سخت اختلاف رکھتی ہیں تا ہم اس کی ایک وجہ حکمرانوں کا پیداواری معیشت کے بجائے سودی معیشت پر انحصار و ترجیح بھی ہے۔
اب اگر اصل موضوع پر آئیں تو معلوم ہوگا کہ حکمران طبقات کو مزدوروں کی اس صورت حال سے کوئی غرض نہیں، حکمران جانتے ہیں کہ انہوں نے ان مزدوروں کو بجلی، پانی اور گٹر جیسے مسائل میں ایسے اُلجھا رکھا ہے کہ وہ تو اس طرف سوچ بھی نہیں سکتے۔ دوسری طرف یہی حکمران اپنی تنخواہوں اور مراعات میں تو سیکڑوں فی صد اضافوں پر متفق ہوجاتے ہیں مگر مزدوروں کی تنخواہیں اور پنشن مقرر کرتے وقت ان کی عقل شل ہو جاتی ہے۔ حالاں کہ غیر جانب دار معیشت دان معاشی نظریات سے ثابت کرچکے ہیں کہ ایک تولہ سونے کی قیمت کے مساوی کم از کم اجرت ملک کی معیشت (اس سے مراد پیداواری معیشت ہے سودی معیشت نہیں) کی بہتری کے لیے ضروری ہے مگر اب اس تصور پر بھی خاک ڈالی جاچکی ہے۔
لطیفہ مشہور ہے کہ قسطوں کا کاروبار کرنے والی کسی کمپنی نے ایک شخص کو ملازمت کا حکم نامہ اور کچھ پتے (ایڈریس) دیتے ہوئے کہا کہ ان افراد سے قسطوں کی رقم وصول کرنی ہے، کچھ دنوں بعد اس شخص کو کمپنی کے مرکزی دفتر نے بذریعہ فون اس کی تنخواہ کے معاملات طے کرنے کے لیے طلب کیا تو اس شخص نے حیرت سے پوچھا کیا؟؟؟ اس کام کی مجھے تنخواہ بھی ملے گی۔ ترقیاتی اور غیر ترقیاتی فنڈز کی اربوں کی رقوم وصول کرنے والے مگر اتنے سادہ نہیں انہیں معلوم ہے کہ انہیں اس کام کی تنخواہ بھی ملے گی اور ان رقوم میں سے مبینہ طور پر خرد برد ہو جانے والی رقوم کے مقابلے میں ان کی تنخواہیں واقعی قابل شرم حد تک کم ہیں۔