سینیٹ کے چیرمین رضا ربانی نے کوئٹہ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سیاست دانوں اور پارلیمنٹ کی مظلومیت کا کچھ اس انداز سے رونا رویا ہے کہ وہ کرۂ ارض کی سب سے محکوم اور مجبور شے معلوم ہوتی ہے۔ رضا ربانی نے سیاست دانوں کی مجبوری، محکومی اور مظلومی کا جو سماں باندھا ہے اس نے بلاشبہ شرکائے تقریب کی آنکھیں پرنم کی ہوں گی۔ رضا ربانی کے بعد ڈکٹیٹروں کا مقدمہ لڑنے پرویز مشرف میدان میں آدھمکے اور انہوں نے ڈکٹیٹروں کے ادوار کی تعریفوں میں زمین و آسمان کے وہ قلابے ملائے کہ ہر پاکستانی کا دل بے ساختہ اس پاکستان کو تلاش کرنے کے لیے بے تاب ہو گیا ہوگا۔ جنرل مشرف کا وہ پاکستان جس نے ڈکٹیٹروں کے دور میں ترقی کس جزیرے میں ہے کسی کو خبر نہیں۔ رضا ربانی نے سیاست دانوں کی مظلومیت کا جو رونا رویا ا ور جنرل مشرف نے فوجی حکمرانی کے جو قصیدے پڑھے ادھورا سچ اور پسند کا بیانیہ ہے۔ اسے اپنے اپنے طبقے کی بے جا حمایت کے سوا اور کیا نام دیا جا سکتا ہے۔ سینیٹر رضا ربانی کا کہنا تھا کہ پارلیمان بہت کمزور ہے کوئی بھی اس پر چڑھائی کر دیتا ہے۔ کبھی مارشل لا کے ذریعے اور کبھی 58ٹو بی کا سہارا لے کر وزیر اعظم کو گھر بھیجا گیا۔ اب بھی پارلیمان کو کمزور کرنے کے طریقے ڈھونڈے جا رہے ہیں۔ رضا ربانی کا کہنا تھا اداروں میں محاذ آرائی نہیں ہونی چاہیے ترقی اور استحکام کے لیے مل کر چلنا ہوگا۔ پرویز مشرف نے تو اس سے بھی زیادہ کمال کی باتیں کی ہیں ان کا کہنا ہے کہ فوج ملک کو پٹڑی پر لاتی ہے اور سویلین اسے پٹڑی سے اتار دیتے ہیں۔ پاکستان کو بھی ڈکٹیٹروں نے ٹھیک کیا۔ جب وہ گئے تو سویلینز نے ملک کا بیڑہ غرق کیا۔ ملک میں ڈکٹیٹروں کی وجہ سے ترقی ہوئی۔
اپنے طبقات کی حمایت میں آنسوں بہانا اور اندھی وکالت کرنا ہر کسی کا حق ہے مگر یہ آدھا سچ اور ادھوری حقیقت ہے۔ ملک کے سیاست دانوں نے اپنے انداز حکمرانی سے کوئی قابل قدر مثال قائم نہیں۔ انہوں نے ایک آئیڈیل حکومت قائم کرنے کے بجائے اختیارات کو ایک ذات میں مجتمع کرنے کی پالیسی اپنائی۔ پورے نظام کو شخصی وفاداری کے کولہو کے ساتھ باندھ کر اسی کے گرد گھومنے پر مجبور کیا۔ پارلیمنٹ کو غیر متحرک کیا گیا اور پارلیمانی کمیٹیوں کی کارکردگی صفر رہی۔ پارلیمنٹ نے حکمران کے احتساب کا کام چھوڑ دیا بلکہ اس اصطلاح کو ڈکشنری سے کھرچ ڈالنے کی روش اپنائی۔
جمہوریت میں ادارے مضبوط ہوتے ہیں جو سیاست دانوں اور حکمرانوں کسی کا بھی احتساب کر سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں جمہوری حکمران اپنی گنجائش کارکردگی سے بڑھانے کے بجائے لڑائی چھیڑ دیتے ہیں جس سے تصادم کا ماحول بنتا ہے اور طاقت کی لڑائی شروع ہوجاتی ہے اور پھر طاقت کے کھیل میں جیت کا معیار بھی طاقت ہی قرار پاتی ہے۔ فوجی حکمرانی نے ملک میں زوال کو کم کرنے کے بجائے بڑھایا ہی ہے۔ وقتی طور پر فوجی حکمران جادوگر ٹیکنو کریٹس کا سہارا لے کر ملکی معیشت کو استحکام کی راہ پر لاتے ہیں مگر یہ ترقی کا کوئی پائیدار طریقہ نہیں ہوتا۔ جنرل پرویز مشرف اپنے دور میں معاشی ترقی کا میعار ہر شخص کے ہاتھ میں موبائل آجانے کو کہتے تھے۔ ان میں چوری کے موبائل بھی ہو سکتے تھے، چھینے ہوئے بھی ہو سکتے تھے اور گھریلو اشیا فروخت کرکے خریدے ہوئے بھی شامل تھے۔ اگر اسی کو ترقی کا میعار مانا جائے تو اس وقت اگر ہر گھر میں دو افراد کے ہاتھوں میں موبائل ہوتے تھے آج ہر فرد کے پاس کم ازکم دو نہیں تو ایک موبائل ضرور موجود ہے۔ تو کیا اس سے ہم ترقی کے اوجِ کمال پر پہنچ گئے ہیں؟۔
عمومی طور پر دیکھا گیا سیاسی عمل رک جانے سے ملک تعصبات کا شکار ہوتا رہا۔ معاشرے کے غیر سیاسی ہونے سے عام آدمی قومی امور سے لاتعلق ہوتا چلا گیا اور پوری سوچ ہی ذاتی نفع نقصان کے گرد گھومنے لگی۔ ایوب خان اور جنرل ضیاء الحق کی حکومتیں تو پرانی بات ہیں جنرل پرویز مشرف تو خود اپنی حکومت کو نرم فوجی حکومت کہتے تھے جس میں ان کی حیثیت چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے بجائے چیف ایگزیکٹو کی تھی اس کے باجود ان کی حکومت نے ملک کا عارضہ بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ملک کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ایک بے مقصد اور ضرر رساں آگ میں دھکیلا گیا اور اس صورت حال سے نکلنے کی کوششیں آج تک پوری طرح کامیاب نہیں ہوئیں۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ جمہوری حکمرانوں کو خوشامدیوں کے حصار میں رہتے ہوئے باشادہ بننے کا خیال چرانے لگتا ہے۔ وہ اپنے گرد تقدس کا ایسا ہالہ بنا لیتے ہیں کہ نہ پارلیمنٹ کو جواب دہ ہونا انہیں گوار ہوتا ہے اور نہ ہی وہ اپنی سلطنت میں عدلیہ کی مداخلت پسند کرتے ہیں اور حساب کتاب رکھنے اور طلب کرنے والے اداروں کو تو راول جھیل میں ڈبونے پر مُصر رہتے ہیں۔ اسی طرح ڈکٹیٹروں کو بھی تھوڑی دیر بعد ہی دنیا کے لیے قابل قبول بننے کے لیے آمریت کے مرغ پر جمہوری کلغی سجانے کا شوق چراتا ہے اور اسی شوق میں وہ تجربات کرتے کرتے کسی دلدل میں جا کھڑے ہوتے ہیں اور یہی ان کے انجام کا آغاز ثابت ہوتا ہے۔ اس لیے سیاست دانوں اور فوجی حکمرانوں دونوں کو پاکئ داماں کی حکایت سنانے کے بجائے اپنے کردار کی بیلنس شیٹ مرتب کرنی چاہیے۔