مری کا پر فضاء سیاحتی مقام

740

zc_alamgirAfridiپچھلے دنوں جہاں مری میں چند دن گزارنے اور وہاں کے سیاحتی مقامات کی رونق اور ترقی اور وہاں دستیاب سہولتوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا وہاں سوشل میڈیا پر ایک ایسی پوسٹ ہمارے دل کے پھپھولے پھوڑنے کا باعث بنی ہے جس میں مری اور کالام کی سہولتوں کاتقابل کرتے ہوئے ان دونوں سیاحتی مقامات کی مرکزی سڑکوں کا نظارہ پیش کیا گیا ہے۔ اس پوسٹ میں ایک جانب مری کی دو رویہ بین الاقوامی معیار کی چمکتی دمکتی ایکسپریس وے دکھائی گئی ہے جب کہ دوسری طرف کالام کی ٹوٹی پھوٹی خستہ حال گرد وغبار سے اَٹی سڑک ہم سب کے ساتھ ساتھ تبدیلی والی سرکار کا منہ بھی چڑا رہی ہے۔ مری ملک کے سب سے بڑے صوبے کا واحد گرمائی سیاحتی مقام ہے جہاں پنجاب حکومت نے تمام ممکنہ سہولتیں بدرجہ اتم فراہم کر رکھی ہیں۔ ملکہ کوہسار یعنی مری کی ایک اور خوش قسمتی یہ ہے کہ اس پر میاں محمد نواز شریف کی شکل میں وفاقی حکومت بھی ہمیشہ مہربان رہی ہے۔ جب کہ اس کی خوش بختی کی ایک اور وجہ اس کا وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے علاوہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ہیڈ کوارٹر محض ستر کلو میٹر کی مسافت پر واقع ہونا ہے۔ مری تک رسائی کا سب سے قریبی، سستا اور آسان راستہ اسلام آباد اور پنڈی سے ہو کر گزرتا ہے جسے کشمیر ہائی وے، مری روڈ، مری ایکسپریس وے اور ای 75کے ناموں سے جانا جاتا ہے۔ اسلام آباد اور پنڈی کے مضافاتی علاقے بارہ کیو سے ہوتے ہوئے مری کی جانب جانے کے لیے کچھ عرصے پہلے تک ایک ہی یک رویہ مرکزی شاہ راہ تھی جو ان دنوں بھی مری روڈ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ سڑک یک رویہ ہونے کے باوجود کافی کشادہ ہونے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی معیار کی تمام سہولتوں سے مزین ہے خاص کر بڑے اور خطرناک موڑوں میں حادثات سے بچنے کا معقول بندوبست کیا گیا ہے۔ اس سڑک کا فاصلہ چوں کہ نئی تعمیر شدہ ایکسپریس وے کی نسبت کم ہے اس لیے اس پر ایکسپریس وے کی نسبت ٹریفک کا رش کئی گنا زیادہ ہے۔ اس پرانی اور روایتی شاہراہ پر ٹریفک کا بوجھ کم کرنے کے لیے کچھ عرصہ قبل مری ایکسپریس وے تعمیر کی گئی ہے جو نہ صرف دورویہ ہے بلکہ اس میں موٹر وے کے بین الاقوامی معیار کی تمام ضروری سہولتیں بھی فراہم کی گئیں ہیں۔ یہ ایکسپریس وے مری کے پہلو سے گزرتے ہوئے براستہ کوہالا مظفر آباد تک گئی ہے جس کا مری اسلام آباد حصہ تو مکمل ہو چکا ہے البتہ مظفر آباد تک اس کی توسیع اور تعمیر پر کام جاری ہے۔
نوے کلو میٹر فاصلے پر محیط اس ایکسپریس وے کو صاف ستھرا رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کی وقتاً فوقتاً مرمت کا خاطر خوا ہ انتظام ہونے کے باعث یہاں بحفاظت سفر کی جملہ تمام سہولتیں فراہم کی گئیں ہیں البتہ بعض مقامات پر اسپیڈ بریکرز سے اس شاہراہ پر پرسکون اور آرام دہ سفر کا مزہ کافی حد تک کر کرہ ہوجاتا ہے ویسے بھی اتنی مصروف اور بڑی شاہراہوں پر اسپیڈ بریکرز کی تعمیر جہاں ٹریفک کی روانی میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہے وہاں بسا اوقات ان سے حادثات بھی جنم لیتے ہیں اس لیے انہیں نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے محفوظ سفر کے دعوے اورنعرے کے مطابق قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ مری سے براستہ بھوربن اور روات کوہالا تک سڑک یک رویہ ہونے کے باوجود ہموار اور شفاف ہونے کے باعث سیاحوں کو بڑی تعداد میں اپنی جانب راغب کرنے میں کافی مددگار ہے۔ البتہ کشمیری بازار، روات اور دیول میں چوں کہ سڑک کی چوڑائی کافی ہے اور یہاں گاڑیوں، دکانوں اور لوگوں کا رش بہت زیادہ ہوتا ہے اس لیے بسا اوقات ان بازاروں میں ٹریفک جام ہوجاتا ہے جس سے سیاحوں کو غیر ضروری ٹینشن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بھوربن کا پرل کانٹینینٹل ہوٹل اور یہاں نوہولز پر مشتمل گالف کلب نیز یہاں کے گھنے سرسبز وشاداب جنگلات، ہائیکنگ ٹریک اور خاص کر یہاں مختلف النوع پرندوں کی چہچہار اورٹھنڈے یخ بستہ اُبلتے ہوئے پانی کے قدرتی چشمے یہاں کی خوبصورتی کو چار چاند لگانے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھتے ہیں۔ مری سے ایوبیہ اور نتھیا گلی کی جانب کے مناظر اور بھی زیادہ دلکش اور حسین ہیں۔ اس جانب بھی سڑک کا معیار بہترین ہے۔ راستے میں بندروں کے غول، زمین پر اُترے ہوئے بادل، لہلہاتی ہوئی ہوائیں اور تا حد نگاہ پہاڑوں اور نیچے ڈھلوانوں میں پھیلے ہوئے گھنے اور خوبصورت جنگلات قدرت کا حسین نظارہ پیش کرتے ہیں۔ یہاں ایوبیہ کے نیشنل پارک، چیئر لفٹ، نتھیا گلی اور باڑہ گلی کے درمیان واکنگ ٹریک اور نتھیا گلی بازارکا تذکرہ نہ کرنا یقینازیادتی ہوگی۔ اسی طرح مری کا ذِکر کرتے ہوئے مال روڈکی خوبصورت دیسی اشیا سے بھری ہوئی دکانوں ،لذیز کھانوں،چائے اور کافی کے لیے مشہور ریستورانوں، یہاں کی تاریخی جامع مسجداور اس چھوٹے سے شہر میں قائم کئی تاریخی گرجا گھروں،پنڈی پوائنٹ اور پتریاٹاکی چیئر لفٹ کی سیر اور راستے میں خوبصورت سدھائے ہوئے سفید اور بھورے گھوڑوں کی سواری کے ذکر کے بغیر مری کی سیر اور یہاں کی سیاحت کاحال احوال بیان کرنا ادھورا ہوگا۔ مری اور گردونواح کے علاقوں میں سیاحوں کی سہولت کے لیے ہسپتالوں، ڈاک، بینکوں، ریستورانوں، پارکس، ریڈنگ روم، کار پارکنگ، ٹریفک سسٹم اور سب سے بڑھ کر پرامن اور سیاح دوست موحول کی فراہمی ایسے اقدامات ہیں جن کی وجہ سے یہاں سال کے بارہ مہینے نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سیاحوں کا رش بھی جوبن پرہوتا ہے۔ مری کی جس بات نے مجھ ناچیز کو سب سے زیادہ متاثر کیا اورجو کسی بھی سیاحتی مقام کو سیاحوں کو اپنی جانب راغب کرنے میں کلیدی اہمیت کی حامل بات ہے وہ مقامی لوگوں کا سیاحوں کے ساتھ انتہائی دوستانہ رویہ اور ہر مقامی فرد چاہے وہ ٹیکسی ڈرائیور ہے، دکاندار، ویٹر، پولیس کانسٹیبل ہے یا غبارے بیچنے والا یہ سب بالاتفاق سیاحوں کومقامی روایات کے مطابق اپنا مہمان اور بزنس مینجمنٹ کے اصول کے تحت اپنا معزز گاہک سمجھ کر ڈیل کرتے ہیں اور شاید بہت ساری دیگر وجوہ کے ساتھ ساتھ سیاحوں کا مری کی جانب جھکاؤکا سب سے بڑاسبب یہی سیاح دوست رویہ ہے ۔