بے لگام میڈیا اور عدلیہ کی بے بسی

190

مسز بینا حسین خالدی ایڈووکیٹ، صادق آباد
گزشتہ دِنوں لاہور ہائی کورٹ نے بھارتی فلموں، ڈراموں اور تشہیری مواد کے خلاف دائر مقدمے میں پیمرا کا جاری کردہ اعلامیہ کالعدم قرار دیتے ہوئے بھارتی فلموں، ڈراموں اور تشہیری مواد کی نمائش کی اجازت دے دی ہے اور اس فیصلے کا کوئی قانونی جواز پیش کیے بغیر محض یہ ریمارکس دیے ہیں کہ ’’دنیا گلوبل ویلیج بن چکی ہے ہم کب تک پابندیاں لگاتے رہیں گے؟۔
ان کے ایسے ریمارکس پر احتجاج کرتے ہوئے میں یہ ضرور کہنا چاہتی ہوں کہ اگر دنیا گلوبل ویلیج ہے تو اس میں رہنے والے تمام انسانوں کو یکساں اور برابری کی بنیاد پر تمام انسانی حقوق حاصل ہونے چاہئیں۔ جس طرح اظہارِ رائے اور اپنے کلچر کی نمائش کی آزادی ہے اِسی طرح ایک ویلیج کے رہنے والوں کو حق خودارادیت اور اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کی بھی آزادی ہونی چاہیے۔ پھر انڈیا میں گائے ذبح کرنے پر عدالتی و حکومتی پابندیاں بھی ختم کردی جانی چاہئیں اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کا بھی حقِ خودارادیت تسلیم کرلیا جانا چاہیے۔ ایک ویلیج کے تمام باشندے ایک دوسرے کے دُکھ درد میں شریک ہوتے ہیں اور دوسرے انسانوں پر ہونے والے ظلم و تشدد اور بربریت کے خلاف احتجاج کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ پاکستانی عوام نے ہمیشہ مظلوم کشمیریوں کا ساتھ دیا ہے اور احتجاجاً بھارتی مواد کی تشہیر پر پابندی کا مطالبہ بھی کیا ہے اور اسی مقصد کے تحت ہائی کورٹ میں مذکورہ مقدمہ بھی عوام کے احتجاج پر پیمرا کی جانب سے دائر کیا گیا تھا۔ احتجاج کرنے والے مسلمانوں کا یہ حق رد کرتے ہوئے جناب چیف جسٹس صاحب سید منصور علی شاہ نے کروڑوں مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا ہے، ایک طرف تو وہ یہ ریمارکس دیتے ہیں کہ دنیا گلوبل ویلیج ہے، یہاں سب کو یکساں حقوق ملنے چاہئیں تو کیا اُن مسلمانوں کا حق نہیں ہے کہ ان کے انسانی ہمدردی پر مبنی احساسات اور مذہبی جذبات کو مجروح نہ کیا جائے؟۔جناب چیف جسٹس صاحب بھی تو اِسی گلوبل ویلیج کا حصہ ہیں کیا انہیں پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود بارڈر پر بھارتی فوج کی قانونی خلاف ورزیاں اور بلااشتعال فائرنگ سے ہونے والی نہتے اور معصوم انسانوں کی ہلاکتوں پر کوئی افسوس نہیں ہے؟ قطع نظر اس کے اگر انہوں نے یہ فیصلہ قانون کے مطابق کیا ہے تو کیا پاکستان کا آئین اور قانون فحش مواد کی تشہیر کی اجازت دیتا ہے؟ خواہ یہ مواد پاکستانی چینلز نشر کریں یا انڈین چینلز سے دکھایا جائے، اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین و قانون اس کی قطعی اجازت نہیں دیتا۔ جناب چیف جسٹس کے مذکورہ فیصلے کے بارے میں جان کر ایسا لگتا ہے کہ اس ملک کا کوئی قانون نہیں ہے اور مذکورہ مقدمے کے فیصلے کے معاملے میں بے لگام الیکٹرونک میڈیا کے آگے ہماری عدلیہ مجبور و بے بس ہے۔ اس کے علاوہ چیف جسٹس صاحب سیّد گھرانے سے تعلق رکھنے والے مسلمان ہیں کیا وہ نہیں جانتے کہ قرآنِ عظیم ایسے لوگوں کے لیے درد ناک عذاب کی وعید سُناتا ہے جو ’’چاہتے ہیں کہ اہلِ ایمان کے گروہ میں فحش پھیلے‘‘۔
اگر دنیا گلوبل ویلیج ہے تو یہاں منبر و محراب کو بھی اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچانے کی آزادی ہونی چاہیے۔ یہ کیسا گلوبل ویلیج ہے جہاں فحش آڈیو ریکارڈ کی کان پھاڑ دینے والی اشاعت کی تو اجازت ہے، رکشوں، موٹر سائیکلوں، بسوں، ویگنوں میں چلایا جانے والا فحش گانوں کا بے ہنگم شور تو برداشت کرلیا جاتا ہے لیکن اذان کی آواز کو بلند کرنے اور جمعے کے خطبوں کے لیے لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر پابندیوں کے حکم نامے عدالتوں سے ہی جاری کیے جاتے ہیں۔ عدالتیں ایسے فیصلے جاری کرتے ہوئے کیوں نہیں کہہ دیتیں کہ دنیا گلوبل ویلیج بن چکی ہے۔ لہٰذا ہم کب تک اذانوں اور جمعے کے خطبوں پر پابندی لگاتے رہیں گے۔ جناب چیف جسٹس ’’سیّد‘‘ منصور علی شاہ صاحب سوموٹو ایکشن کے تحت منبر و محراب پر عائد پابندیوں کا نوٹس لیتے ہوئے یہ پابندیاں ہٹانے کا فیصلہ صادر فرمائیں یا پھر اپنے نام کے ساتھ سیّد لکھنا چھوڑ دیں۔