ابو تمیم
دنیا بھر میں جاری داخلی لڑائیوں اور ممالک کے درمیان جنگوں کو عام طور پر تہذیبوں کا تصادم کہا جاتا ہے، لیکن یہ کیسی نام نہاد تہذیبیں ہیں، جو جنگوں کے ذریعے پوری کی پوری نسلوں کو تباہ و برباد اور اپنے منفی اثرات سے اذہان کو بانجھ کردیتی ہیں۔ یہ کیسی نام نہاد تہذیبیں ہیں، جو صدیوں سے کھڑے تاریخی ورثے کو کھنڈر بنا دیتی اور ان قدیم علاقوں میں کئی سو برس سے آباد خاندانوں کو بے گھر کردیتی ہیں۔ اس تاریخی ورثے نے درجنوں بار قدرتی آفات کا سامنا کیا، لیکن اپنی جگہ سے متزلزل نہ ہوا۔ ان قدیم مکینوں نے آندھی، بارش، سیلاب اور زلزلہ‘ کیا کچھ نہ سہا، لیکن جلد ہی اپنے آباواجداد کے مکانوں اور اپنے پیارے آشیانوں کو دوبارہ رہنے کے قابل بنا لیا۔ تاہم ان نام نہاد تہذیبوں کے حالیہ تصادم نے اس تاریخی ورثے کو یوں کھنڈرات میں تبدیل کیا ہے کہ اب عین ماضی کی طرح اس کا دوبارہ کھڑا کیا جانا ممکن نہیں۔ کچھ یہی حال ان علاقوں سے ترکِ وطن کرنے والوں کا ہے، جو اَب چاہتے ہوئے بھی اپنے گھروں کو واپس نہیں لوٹ سکتے۔
یوں تو اس داستان کے عملی مظاہر ہمیں دنیا بھر میں نظر آتے ہیں، لیکن ان دو دہائیوں میں کرۂ ارض کی قدیم ترین تہذیبوں کا گہوارہ اور تاریخی ورثوں کا حامل خطہ ’مشرقِ وسطیٰ‘ سب سے زیادہ اس اَلم ناک صورت حال سے دوچار دکھائی دیتا ہے۔ آج ایک طرف عراق کے تاریخی شہرموصل کو دہشت گرد تنظیم داعش اور امریکی فوجی اتحاد کے درمیان لڑائی کا میدان بنا کر ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا ہے، تو دوسری طرف شام کے قدیم شہر حَلب، حَما، حِمص، دَرعا اور مشرقی غوطہ کے شہر، قصبات اور دیہات بشارالاسد اور روس کی بم باری سے جل کر راکھ ہوچکے ہیں۔ یہی حال یمن کے ٍصوبوں اور شہروں صنعا، عدن، تعز، حضرموت اور اَبین کا ہے، جہاں ایران نواز حوثی باغیوں اور سعودی عرب کی اتحادی حکومت کے درمیان جھڑپوں کے باعث صدیوں سے موجود تاریخی آثار آہستہ آہستہ مٹتے جا رہے ہیں۔
ویسے تو ان شہروں کی تاریخ اور اہمیت کو دیکھتے ہوئے، ان میں سے ہر ایک کا مرثیہ لکھا جانا ضروری ہے، تاہم اس وقت ہم جس شہر کا نوحہ پڑھنے جا رہے ہیں، وہ مشرقِ وسطیٰ کا ایک قدیم ترین شہر اور شامی تہذیب کا گہوارہ حلب ہے۔ اس شہر کو ترجیح دینے کی وجہ گزشتہ روز 3 اگست کو شائع ہونے والی خبررساں ادارے رائٹرز کی ایک رپورٹ ہے، جس میں حلب کے قدیم علاقے کی ازسرنو تعمیر کی بات کی گئی ہے۔ یہ رپورٹ پیش کرنے سے پہلے ہم حلب کی تاریخ پر مختصر نظر ڈال لیتے ہیں، تاکہ اس المیے کو سمجھنا آسان ہوسکے۔
حالیہ خانہ جنگی سے قبل ’حلب‘ شام کا سب سے بڑا شہر تھا۔ یہ شمال میں ترکی سے متصل اپنے ہم نام صوبے کا دارالحکومت بھی ہے۔ اس شہر کے قدیم علاقے میں 5 ہزار سال سے انسان آباد ہیں۔ یہ شہر عموری، حثی، آرامی، آشوری، فارسی، رومی اور بازنطینی قوموں کے زیرنگیں رہ چکا ہے، جب کہ مسلمان سالاروں میں اس کی فتح کا سہرا حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے سر باندھا جاتا ہے۔ انہوں نے امیر المؤمنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں اس عظیم شہر کو فتح کرکے اسلامی خلافت کے ماتحت کیا۔ اس کے بعد سے ہمیشہ یہ سیاسی، علمی، ثقافتی اور معاشی اعتبار سے مسلمانوں کا اہم ترین مرکز رہا۔ اس نے صلیبی جنگوں کو بھی سہا اور ہلاکو خان کی یلغار کو بھی برداشت کیا۔ سلطنت عثمانیہ کے دور میں اپنے محل وقوع اور سرگرمیوں کے باعث یہ عرب خطے کا اہم ترین شہر رہا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد اس پر فرانس کا قبضہ ہوگیا اور شام کی آزادی کے بعد یہ دمشق حکومت کے زیرنگیں آگیا۔
اس کا تاریخی علاقہ جو ’قدیم حلب‘ کہلاتا ہے، 1986ء سے عالمی ورثے کا حصہ ہے۔ اس قدیم حصے میں اَبراج، ابنِ نُصَیر، بن یعقوب، ابو عجّور، ارض العجور، اَسفرس، اسماعیلیہ، اشرفیہ، اَعجام،اَعراب المشارقہ، اَغیُر، حارّتُ الاَکراد، اَلتونبَغا، اَلمہ جی، انصاری، یاروقیہ، بادِنجک، بالی بَرغُل، بانقوسا، بَحسیتا، بریَّتُ المسلخ، حارّتُ البساتنہ اور حارّتُ البستان نامی قدیم محلے ہیں، جن کا تذکرہ ہم تاریخ کی کتابوں میں پڑھتے ہیں۔ یہاں جوخہ، زہرہ، شیخ طہ، بستان القصر اور بستان الکلاب جیسے قدیم باغات ہیں۔ یہاں فصیل کے قدیم دروازے حدید، نصر، جنین، مقام، قنسرین، اَنطاکیا، نیرب، فرج، اَحمر، عدل، صغیر، سعادہ، سلامہ، فرادیس، عراق اور اربعین موجود ہیں۔ اس شہر میں مقدمیہ، حلاویہ،شرفیہ اورخسرویہ جیسے تاریخی مدارس اور ہلالیہ، بزازیہ، کمالیہ، صالحیہ اورقادریہ جیسی خانقاہیں ہیں۔ یہاں کیزوانی، بانقوسا، عادلیہ، کمالیہ، بہرمیہ، خسرویہ اور اطرش جیسی قدیم مساجد صدیوں بعد آج بھی باقی ہیں، جب کہ اس کی جامع مسجد اُموی بنو اُمیہ کے دور کی یاد دلاتی ہے۔ سب سے بڑھ کر بلند ٹیلے پر موجود اس کا تاریخی قلعہ اپنی عظمت رفتہ کا امین ہے۔
تاہم 2011ء میں شروع ہونے والی داخلی لڑائی، خصوصاً 2016ء کے اواخر میں بشارالاسد اور روس کی افواج کے فضائی حملوں اور وحشیانہ انداز میں گرائے گئے گولہ بارود سے، یہ تمام تاریخی ورثہ 70 فیصد تباہ ہوچکا ہے۔ ان میں سے کئی عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں۔ جامع اُموی اور قلعہ حلب کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ خاص طور پر ان تمام تاریخی عمارتوں کے اکثر گنبد اور مینار پتھروں کا ڈھیر بن چکے ہیں، تاہم رائٹرز کے مطابق عالمی ادارۂ تعلیم، سائنس اور ثقافت ’یونیسکو‘ نے کہا ہے کہ اس خرابے کودوبارہ سے اس کی اصل ہیئت پر کھڑا کرنا ممکن ہے، لیکن اس کے لیے اس عالمی ادارے کو شامی ہنر مندوں کی خدمات اور بین الاقوامی برادری سے مالی امداد درکار ہوگی۔ یونیسکو کا دعویٰ ہے کہ وہ 70 فیصد تباہ ہوجانے والے اس قدیم علاقے کی ایک ایک اینٹ کو دوبارہ اس کی جگہ رکھ سکتی ہے، لیکن یہ عالمی ادارہ فی الحال اس حوالے سے غیریقینی کا شکار ہے کہ اس علاقے سے نقل مکانی کرنے والے لاکھوں باشندے جو اندوران اور بیرونِ ملک پناہ گزیں ہیں، کبھی اپنے گھروں کو واپس لوٹیں گے!
ہمارا خیال ہے کہ یونیسکو اس تاریخی ورثے کو شاید کبھی دوبارہ زندہ نہیں کرسکے گا اور ہم یوں ہی اس کا نوحہ پڑھتے رہیں گے، کیوں کہ قدیم حلب پر کسی ایک تہذیب یا فن تعمیر کا اثر نہیں تھا۔ یہاں بازنطینیوں سے لے کر فرانسیسیوں تک کے آثار تھے۔ ان میں سے کئی اقوام آج دنیا میں موجود ہی نہیں، جب کہ کئی اپنی تہذیب اور فن تعمیر کو صدیوں پہلے چھوڑ چکی ہیں۔ پھر کس طرح ان عمارتوں کو اصل ہیئت پر کھڑا کیا جائے گا؟! اور اگر ایسا کر بھی دیا گیا، تو ان قدیم محلوں کی فضا میں بسی وہ خوش بوئیں کہاں سے آئیں گی، جو اِن کی قدامت کی سب سے بڑی دلیل ہیں۔