ادھورا معاشرہ 

229

مظہر اقبال
موجودہ حالات میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں استاد کا کردار یا اس کی اہمیت نظر نہیں آ رہی۔ ساری قوم ایم بی اے کرنا چاہتی ہے اگر وہ نہیں تو سی اے تو لازمی کرنا ہے۔ بقول قتیل شفائی ؂
ہر شخص کی جبیں پر کرتے رقص تارے
ہر شخص زندگی کی رعنائی چاہتا ہے
من حیث القوم جب ہماری یہ سوچ پیدا ہو گئی تو اچھے اچھے دماغوں نے استاد بننا چھوڑ دیا۔ استاد کی اہمیت بھی ختم ہو گئی۔ رشتے ہوں یا سماجی محفلیں، استاد کو نظر انداز کیا جانے لگا۔ حتیٰ کہ اساتذہ کے اپنے کے علاقے بھی الگ ہو گئے۔ ان تمام علاقوں نے نئی نسل پر گہرے اثرات مر تب کیے۔ موجودہ سروے کے مطابق کوئی دو فی صد نوجوان بھی استاد نہیں بننا چاہتے۔ جب کہ وولز تھارپ اور سزیوزبری میں رہنے والے دو بچے ڈارون اور نیوٹن بچپن میں استاد ہی بننا چاہتے تھے۔ ڈارون کے ماں باپ نے بہت سمجھایا کہ میڈیکل ڈاکٹر بن جاؤ مگر اس بچے کے سر پر تو تحقیق کرنے کی دھن سوار تھی یہی دھن اسے ملکہ کے پاس لے گئی اور ملکہ نے اسے بحری جہاز اور تمام سہولتیں دے دیں اور وہ گیلپکس جزیرے کی جانب چل پڑے۔
یہ واقع پیش کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ 300سال پہلے کے برطانیہ کا نقشہ پیش کیا جا سکے۔ اس وقت کے طبقۂ امراء میں صرف پڑھنے پڑھانے اور تحقیق کا فیشن تھا۔ آج ہم کہاں کھڑے ہیں۔ اس کے پیچھے صرف اور صرف ایک وجہ ہے اور وہ ہے استاد سے دوری۔ آپ مجھے بتائیے ٹی وی چینلوں کے کتنے ایسے پروگرام ہیں جن میں بنیادی اور اعلیٰ سطح کے اساتذہ کو بلا کر گمبھیر مسائل پر ان کی رائے لی جاتی ہو۔ اگر کسی کو بلایا بھی جاتا ہے تو اس کے عہدے کی وجہ سے بلایا جاتا ہے۔ اب یہ نہیں پتا کہ ان صاحب کو یہ عہدہ کیسے ملا۔
کسی بھی قوم کے تعلیمی مقاصد متعین کرنے ہوں یا اس قوم کی اخلاقی تطہیر کرنی ہو استاد کا کردار ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہے۔ میں اس موقعے پر ایک چھوٹی سی مثال پیش کرنا چاہتا ہوں۔ پچھلے کچھ سال سے دہشت گردی عروج پر تھی۔ ایسے میں کئی دہشت گرد پکڑے گئے اور ان کو میڈیا پر لایا گیا۔ اس صور ت حال سے میڈیا نے خوب فائدہ اٹھایا۔ ہم سب نے دیکھا کہ اس منظر نامے میں تین طرح کے لوگ پیش پیش تھے۔ ایک میڈیا والے‘ دوسرے قانون نافذ کرنے والے‘ تیسرے مجرم کسی ایک چینل کے انویسٹی گیٹو رپورٹر نے اس کا سرا اس کے اسکول یا کالج سے نہیں ملایا اور نہ ہی اس کے اساتذہ تک پہنچا۔ وہ کون سے استاد تھے جو اس کی اخلاقی تربیت کرنے سے قاصر رہے۔ اگر انہوں نے اپنا فرض ادا نہیں کیا تو اس کی کیا حرکات ہیں؟ کیا وہ خود واقعی استاد ہیں؟ کیا ان کے پاس اس بگڑ جانے والے نو جوان کا کوئی ریکارڈ ہے؟ کیا اس استاد کے پاس اس کی کوئی کریکٹر فائل بنی ہوئی ہے؟ کیا یہ واقعی استاد ہے یا بے روزگاری کی وجہ سے محکمہ تعلیم میں فٹ ہوگیاہے؟
اس طرح کے کئی سوالات ہیں۔ مگر ہمارا معاشرہ کمرشل لائن پر چل پڑا ہے۔ زوردار میوزک پر چٹ پٹی خبریں اور پھر اشتہارات کی بھر مار۔ ٹی وی کے ناظرین کی توجہ کو بانٹ دیا جاتا ہے۔ یہ خبر قصہ پارینہ بن جاتی ہے۔ اس کے بعد ٹی وی والے اس طرح کی اور خبریں ڈھونڈنے میں لگ جا تے ہیں۔ اور کسی بھی پروگرام کا میزبان یا رپورٹر اس کھوج میں نہیں پڑتا کہ وہ مجرم کیسے بنا؟ کیا وہ پرائمری کلاس سے ہی مجرم تھا؟ کیا کوئی اس کے پرائمری کے ٹیچر سے جاکر ملا؟ نہیں۔ کیا وہ سیکنڈری میں جا کر مجرم بنا؟ کیا کوئی اس کے ٹیچر کے پاس چل کر گیا؟ نہیں! میں اس موقع پر ٹیچر کو کوئی فرشتے کے طور پر پیش نہیں کرنا چاہتا کہیں ایسا تو نہیں کہ خود پرائمری کے ٹیچر کا رویہ اس کے اندر جرم کو ابھارنے کا ذریعہ بنا ہو۔ یا ٹیچر کا تشدد آمیز رویہ اس معصوم ذہن کے لیے جرم کی وجہ محر کہ بن گیا ہو۔ کیا ہمارے ہاں ہر دو سال بعد ٹیچر کے لیے سائیکالوجی ٹیسٹ کا انتظام کیا جاتا ہے؟ جی نہیں۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ برطانیہ میں ہر دو سال بعد ٹیچر کے لیے پولیس کلیرنس رپورٹ وارننگ پوائنٹ ضروری ہوتی ہے۔ اس معاشرے کو پتا ہے کہ استاد خود ایک انسان ہے اور اس طرح کی کلیرنس رپورٹ خود استاد کے لیے ایک WARNING POINT بن جاتا ہے۔ کہیں خود کسی استاد کے اندر تو ایسے منفی خیالات ور جحانات نہیں پنپ رہے۔ اور اگر ایسا ہے تو بروقت اس کی Couseling کی جاتی ہے۔ مختلف طریقوں کی مدد سے منفی و سفلی خیالات و رجحانات کو جھاڑا جاتا ہے۔ برطانوی معاشرے میں استاد کو ایک رول ماڈل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ہمیں خوب یاد ہے کہ ایک مرتبہ لندن کے ایک اسکول میں ہماری ڈیپوٹیشن ہوئی۔ نیا علاقہ اور گلیوں کے پیچ و خم کی وجہ سے ہم کچھ جزبز ہو گئے۔ تاہم جب اسکول میں داخل ہوئے تو منتظم نے انتہائی شفقت سے کہا آپ خیریت سے ہیں؟ اپنے آپ کو بحا ل کر لیجیے۔ کیا آپ نے بھر پور ناشتہ کیا ہے؟ اگر نہیں تو اس کا انتظام کرا دیتے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ آپ کلاس روم میں ایک مسکراہٹ کے ساتھ داخل ہوں اس سے ہمارے بچوں پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
خیر! یہ تو تھی ایک حساس قوم کی ایک چھوٹی کی جھلک۔ اس طرح کی اخلاقیات تیھکس ہمارے ہاں ناپید ہیں۔ چلتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف۔ ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکا کہ بنیادی تعلیم اور اس کا معیار ہماری حکومتوں کے ایجنڈے پر ہونا چاہیے یا نہیں۔ ہمارے کلچر میں صرف دو شعبے ترجیح پر ہیں ایک پارلمنٹ اور دوسرا بیوروکریسی جب پارلیمنٹ کا اجلاس ہوتا ہے تو نیچے سے اوپر تک سیکرٹریز کی دوڑ لگ جاتی ہے۔ اس اجلاس کو کامیاب بنانے کے لیے سیکرٹری حضرات کا ٹرانسپورٹ سے لیکر، ہوٹل کھانے کا انتظام و انصرام، اور پارلیمنٹ بلڈنگ کے اے سی کا مسلسل چلتے رہنا ترجیح کو ظاہر کرتا ہے۔ جب کہ اسکولوں کو چلانے کے لیے ترجیح نہیں ہے۔ میں یہاں یہ بات بتانا مناسب سمجھتا ہوں کہ برطانوی وزیر اعظم برطانیہ کے تمام اسکولوں کا مینیو خود بناتے ہیں۔ فیکس کے ذریعے تمام ضلعوں اور تحصیلوں تک پہنچا دیا جاتا ہے۔
ایک مرتبہ برطانیہ میں ہم ایک اسکول میں کچھ ڈھونڈ رہے تھے کہ غلطی سے راستہ بھول کر اسکول کے کچن میں جا پہنچے۔ ارے صاحب ہمارے فائیو اسٹار ہوٹل کا کچن بھی اس کے آگے کچھ نہیں۔ ہم وہاں کے سرکاری اسکول کی بات کر رہے ہیں۔ ایسے اسکول جہاں ہر چیز کا خاص خیال رکھا جاتا ہو، وہاں جانے والا معلم اپنے اندر ایک بہت بڑے احساس ذمے داری کو نمایاں رکھتا ہے۔
آپ لوگوں کو اچھی طرح یاد ہو گا جب برطانیہ کے کچھ شہروں میں YOBBISH کلچر کی دھن میں چند سو لڑکوں اور لڑکیوں نے بازاروں میں آگ لگا دی تھی۔ سیکرٹری ایجوکیشن نے اس سارے معاملے کا ذمے دار اساتذہ کو ٹھیرایا۔ اس کی ایک کاپی ہمارے ہاتھ بھی لگی۔ اور یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے۔ بچوں کو اسکول کس لیے بھیجا جاتا ہے۔ جی ہاں خالصتاً تربیت کے لیے۔
آج ہمارا معاشرہ جس میں خرافات کی دلدل میں گر گیا ہے۔ وہاں تعلیم کو بھی نہیں بخشا گیا ابھی تک یہ مشق جاری ہے کہ دیہاتی علاقوں میں MBA پرائمری ٹیچر کو اپائنٹ کرتا ہے جب کہ شہروں میں یہ کام ایک بڑا تعلیمی افسر محض چند لاکھ کے عوض کر دیتا ہے۔ ایسے میں ہم نیوئن تو پیدا نہیں کر سکتے البتہ اچھواور ٹن ٹن ضرور پیدا ہوتے رہیں گے۔ بقول شاعر:
پس شہر کی پیشانی پہ لکھی ہے تباہی
جس شہر کے مکتب کی فضا ٹھیک نہ ہو گی
میں ہر گز درخواست نہیں کروں گا کہ حکومت یہ کرے اور حکومت وہ کرے۔ کیوں کہ اس کا وقت گزر چکا ہے۔ اب طلبہ اور والدین کو خود میدان میں آنا ہوگا۔ بدلتی ہوئی جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانا ہوگا۔ سرکاری اسکولوں کے سب ٹیچرز کا قابلیت نامہ Online کرنا ہوگا تاکہ لوگوں کو رانگ نمبر کا پتا چل سکے۔ اور اس کے ساتھ وہ اساتذہ جو محنت اور عزم سے پڑھاتے ہیں ان کے لیے بھی ووٹنگ ہونی چاہیے تاکہ ان کے انعام واکرام کا انتظام کیا جا سکے۔ ہمیں مدارس کو اس کا اصل مقا م دینا ہو گا۔