مواخذہ کاعذاب

233

سمیع اللہ ملک
میرے خانۂ دل میں بھی ایک شور سا برپا ہے۔کتنی ہی دیواریں ہیں کہ ایک ایک کر کے گررہی ہیں۔ ہزار کوتاہیوں اور کمزوریوں کے باوجود مجھے اس بات کا کامل یقین ہے کہ پاکستان ایک معجزاتی ریاست ہے جس کومیرے ربّ نے ایک عظیم مقصد کے لیے تخلیق کیا ہے۔ قارئین کی جانب سے موصول ہونے والی تحریروں میں سے ایک بڑی تعداد ابھی تک کالم’’دعااک جرم‘‘ اور ’’قرض یافرض‘‘پر اپنی قیمتی آراء ارسال کر رہے ہیں لیکن ایک تحریر ایسی بھی موصول ہوئی جس نے میرے جسم و روح تک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیااورمیں کافی دیر تک گم سم اپنی گم گشتہ یادوں کو جمع کرتا رہا،یقیناًتخلیقِ پاکستان کے کئی شہدا آنکھوں کے سامنے اپنے لہولہان لوتھڑوں کے ساتھ حاضر ہو کر فریاد کناں ہوں گے کہ جس عظیم مقصدکے لیے پاکستان جیساانمول تحفہ عطاکیاگیا،ہم 70سال گزرنے کے باوجودایفائے عہدکیوں نہ کرسکے اورہمارے اس جرم عظیم پرمواخذہ کاعذاب کب ختم ہوگا؟
’’میں پچھلے کئی برسوں سے آپ کے کالم پڑھ رہی ہوں لیکن آپ کے اس کالم کو پڑھ کر دل کے کئی پھپھولے پھوٹ گئے جو میں نے پچھلی سات دہائیوں سے اپنے دل کے نہاں خانے میں سب سے چھپا کر رکھے ہوئے تھے۔تخلیقِ پاکستان کے وقت میری عمر بارہ برس تھی اور میرا سارا خاندان صدیوں سے مشرقی پنجاب کے ایک مشہور شہر بٹالہ میں مقیم تھا۔والد محترم اپنے علاقے کے ایک مشہور بڑے زمیندار تھے اور اپنے فلاحی کاموں کے سلسلے میں پٹھانکوٹ اور امرتسر میں بھی کافی مشہور تھے۔زمینوں کے حساب کتاب کے لیے لالہ شرما جی بطور منیم پشت در پشت ہمارے ساتھ ہی مقیم تھے اور ان کی بیٹی پشپا اورمیں ا کٹھے پلے بڑے تھے۔کبھی یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ ہم اس طرح الگ ہوں گے کہ زندگی میں کبھی ایک دوسرے کی شکل تک نہ دیکھ سکیں گے۔
میرے والدگھر سے کئی کئی دن جب دور ہوتے تو پتا چلتا کہ ملک کا بٹوارہ ہونے جارہا ہے اور مسلم لیگ کی تحریک زور پکڑ رہی ہے اور والد محترم مسلم لیگ کی حمایت میں گاؤں گاؤں قریہ قریہ نئے ملک کی افادیت کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔انہی دنوں ملک کی تقسیم کی خبروں نے جب زور پکڑا تو ہمارے گھر کے بیرونی دالان میں گاؤں کے افراد جمع ہوئے ، سب اس بات پر خوش تھے کہ ہمارا علاقہ پاکستان میں شامل ہوجائے گا اور ہم ایک آزاد مسلمان مملکت کے شہری قرار دیے جائیں گے جہاں اللہ اور اس کے نبیؐ کے بتائے ہوئے قوانین کے تحت خلافتِ راشدہ جیسی حکومت ہوگی۔گویا سارے گاؤں میں ایک ایسی عید کا انتظار ہونے لگا جو صدیوں کے بعد نصیب ہونے والی تھی۔
آدھی رات کو اپنا چہرہ چھپائے میری سہیلی ’’پشپا‘‘نجانے کس طرح دیوار پھاند کر گھر میں داخل ہوئی ،میرے کمرے سے وہ خوب واقف تھی،میرے ساتھ اس نے زندگی کے کئی شب روز گزارے تھے ۔اس کا سارا جسم کانپ رہا تھا،اس نے رونا شروع کردیا۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میں نے بغلی کمرے میں اپنی ماں کو فوراً اٹھایا۔ پشپا نے بتایا کہ تم جس طرح ہوسکے اپنی حفاظت کا بندوبست کر لو کہ گاؤں پر حملہ ہونے والا ہے اور میرا باپ اس سازش میں شریک ہے۔ میری ماں نے مجھے یہ پیغام دیکر بھیجا ہے کہ آپ کو مطلع کردوں،اب مجھے جانے دیجیے وگرنہ وہ میرے ٹکڑے کردیں گے۔
ابھی اس خبر سے گھر والے سنبھل نہ پائے تھے کہ حویلی کے پچھواڑے سے بلوائیوں کا ایک ریلا داخل ہوا،ہاتھوں میں تلواریں،بھالے اور کرپانیں لہراتے ہوئے اپنے خوں آشام ارادوں کی تکمیل میں مصروف ہوگئے۔میری آنکھوں کے سامنے میرے ماں باپ،میرے پانچ بہن بھائیوں سمیت گھر کے تین ملازمین کے ٹکڑے کر دیے گئے۔میں خوف کے مارے بھوسے کے اس کمرے میں چھپ گئی جس کے اندرداخل ہونے کی مجھے ساری عمر جرأت نہیں ہوئی تھی۔حویلی کو آگ لگا دی گئی اور اس بھوسے کے کمرے کو بھی آگ دکھا دی گئی جہاں میں چھپی ہوئی تھی۔مجھے پورا یقین ہوگیا کہ میں اس آگ میں بھسم ہوجاؤں گی لیکن میں نے وہاں سے نکلنے کی اس لیے کوشش نہ کی کہ اس طرح عزت کی موت کو گلے لگا نا کہیں بہتر ہے،کم ازکم عزت و عصمت تو محفوظ رہے گی۔ لیکن اللہ کو مجھے بچانا شاید اس لیے مقصود تھا کہ میں اس شوق کے سفر کی روداد اپنی اس نسل کو سنا سکوں جو پاکستان کی قیمت سے واقف نہیں اوران افراد کو بھی شرم دلا سکوں جو آج اس پاکستان اور اس کے بنانے والوں کے خلاف زبان درازی کررہے ہیں۔
اس بھوسے والے کمرے میں دھوئیں کی شدت اور آگ کی حدت نے مجھے مجبور کردیا کہ میں فوری طور پر پچھلے دروازے سے جانوروں کے باڑے کی طرف نکل جاؤں۔میں بھاگ کر اس باڑے میں داخل ہوئی تھی کہ کسی نے میرے اوپر چادر پھینک کر ایک کونے کی طرف دھکا دے دیا۔پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ ہمارا ملازم چچا جسونت سنگھ تھا جس نے ہم سب بہن بھائیوں کو اپنے ہاتھوں میں کھلایا تھا۔چند منٹوں کے بعد وہ مجھے اپنے گھر میں لے گیا جہاں میں مکمل طور پر اس کے رحم و کرم پر تھی۔پانچ دن اس کے گھر میں اس کے خاندان نے میری حفاظت کی اور بالآخر ایک دن مجھے وہ مسلمانوں کے ایک کیمپ میں چھوڑ گئے اور آج بھی جس’’ کیسری رنگ کی چادر‘‘میں مجھے وہ چھپاکر لائے تھے وہ میرے پاس محفوظ ہے۔ دو دن کیمپ میں رہنے کے بعد ہمیں ٹرین میں بٹھادیا گیا اور جب ٹرین نے اپنی منزل کی طرف رینگنا شروع کیا تو میرے گھر کے تمام شہداء خون میں لت پت میری آنکھوں کے سامنے آگئے اور مجھے نہیں پتا کہ وہ بوڑھی عورت کون تھی جو مجھے دلاسہ دیتے وقت خود بھی اسی طرح پھوٹ پھوٹ کر رورہی تھی اور ساتھ ساتھ یہ کہہ رہی تھی کہ کوئی بات نہیں اب ہم اپنے ایسے گھر میں جارہے ہیں جہاں ہمیں کوئی خوف ہوگااورنہ ہماری طرف کوئی میلی آنکھ اٹھا کر دیکھ بھی سکے گا۔
ٹرین پہلے ہی آہستہ آہستہ چل رہی تھی کہ اچانک پھر ویسا ہی منحوس شور اٹھا جیسا میں نے اپنی حویلی کے درودیوار میں سنا اوردیکھا تھا۔ بلوائیوں نے گاڑی پر حملہ کردیا اورآن کی آن میں بلوائی ٹرین میں داخل ہوگئے اوراس کے بعد کا منظر بیان کے لائق نہیں۔ہر سامنے آنے والی چیز کوکاٹ کے رکھ دیا گیا اور ان لاشوں کے ڈھیر کے نیچے میں کس طرح بے سدھ گر گئی ،مجھے اس کا کوئی علم نہیں۔مجھے نہیں معلوم کہ وہ ٹرین کس طرح اس ارضِ پاکستان پہنچی ۔مجھے تو اس وقت پتا چلا کہ جب ایک خاکی وردی والا زورسے چلایا کہ’’ صاب! یہ لڑکی زندہ ہے‘‘۔مجھے خون کے اس دریا سے نکال کر فوری طور پر ایک خیمے میں لایا گیا جہاں کچھ فوجی مجھے طبی امداد دینے میں مصروف ہوگئے۔میں نے اپنے آپ کو مکمل طور پر حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔بعد میں مجھے ایک ہسپتال میں منتقل کردیا گیا جہاں ایک رحم دل خاتون خالہ شفیقہ نے مجھے پہچان لیا اور میرے گھر کے تمام افراد کا نام لے کر مجھ سے ان کا احوال پوچھتی رہیں۔
مجھے اپنے ساتھ گھر میں لے آئیں اور میری دلداری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ زندگی کے معاملات دوبارہ شروع ہوگئے ۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد ان فرشتہ سیرت افراد نے مجھے بیٹی سے بہو بنا لیا۔ میں اپنے شوہر کے ساتھ امریکا منتقل ہو گئی جہاں ان کی مدد سے میں نے بھی پی ایچ ڈی کرلی۔واپس پاکستان آکر چند سال گزارے لیکن یہ پاکستان انہی لوگوں کے ہتھے چڑھ گیا اب جن کی اولادیں اس پاکستان اور اس کے مشاہیر کے خلاف تشکیک پھیلارہے ہیں۔
ہم دونوں میاں بیوی تو حالات سے مجبور ہوکر امریکا واپس آگئے اور درس و تدریس میں مصروف ہوگئے۔ہمارے شاگردوں میں اس وقت بھی پاکستان کے بہت سے بیوروکریٹ اوراسمبلی میں بیٹھے ہوئے ارکان موجود ہیں بلکہ چندامریکی شاگرد تو امریکا کے اعلیٰ عہدوں پر بھی براجمان ہیں۔ہم دونوں میاں بیوی نے ساری عمر بالخصوص پاکستانی شاگردوں کوتعلیمی میدان میں ہر طرح سے سپورٹ کیا کہ وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو کر واپس وطن لوٹیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں نے اس’’ شوق کے سفر ‘‘سے بھی ضرور آگاہ کیا کہ ان کو پاکستان کی قدرومنزلت کا پتا چل سکے۔
ہم دونوں میاں بیوی بڑی خوشحال ریٹائر زندگی گزاررہے ہیں۔ پاکستان کے حالات کے بارے میں ہم بھی اسی طرح پریشان ہیں جس طرح میرے وطن کے دوسرے کروڑوں بیکس اور مجبور انسان لیکن اس کے باوجود مجھے اس بات کا ہمیشہ سے یقین رہا کہ ایک ایسا دن ضرور آئے گا کہ اسی ملک سے اقبالؒ اور محمد علی جناح ؒ کے بیٹے اُٹھیں گے اور اس ملک کی قسمت سنوار دیں گے لیکن آپ کے کالم پڑھ کر اور الیکٹرونک میڈیا کی وساطت سے پاکستان کے جو حالات دیکھ رہی ہوں دل خون کے آنسو رورہا ہے اور خصوصاً ان دنوں پاکستان میں ہونے والے تماشے کودیکھ کرپاؤں تلے سے زمین نکلنے لگی ہے۔خدارا آپ اپنے اس کالم میں ان افراد کی آراء کو ضرور جگہ دیں جو میری طرح اس شوق کے سفر کے مسافر رہے ہیں۔آپ کی اس بات میں کوئی شک نہیں کہ قائد اعظمؒ اور پاکستان دونوں اقبالؒ کی دریافت ہیں،جو ہمارے ان مشاہیر کی تضحیک کرتے ہیں تو غیرت کا تقاضہ تو یہ ہے کہ وہ اس دریافت شدہ جنت سے واپس ان بلوائیوں کی جہنم میں چلا جائے لیکن ایسے لوگ غیرت جیسی انمول نعمت سے واقف نہیں۔اللہ میرے اس پاکستان کی حفاظت فرمائے آمین۔
قارئین!مجھ میں تو اتنی ہمت نہیں کہ اس کے بعد کچھ اور تحریر کرسکوں!