اسلام اور مغرب میں خواتین کے حقوق کا جائزہ

1341

جسارت ڈیسک
اسلام نے عورت کو ایسا وقار عطا کیا ہے جودنیا آج تک عورت کو نہ دے سکی لیکن اسلام دشمن قوتوں نے ایک ایسا پروپیگنڈہ شروع کر دیا ہے جس کی وجہ سے وہ مسلمان عورتوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام نے ان پر پابندیاں لگا دی ہیں، حالاں کہ بات ہرگز ایسی نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کی کئی پڑھی لکھی خواتین بیٹاں بھی غلط فہمی کا شکار ہو جاتی ہیں اور یہ سمجھتی ہیں کہ شائد ہمیں ہمارے جائز حقوق نہیں دئیے گئے۔ دیکھنے میں پہلی بات یہ ہے کہ اسلام نے عورت کو پردے کا حکم دیا ہے جبکہ غیر مسلم معاشرے میں عورت بے پردہ پھرا کرتی ہیں، تو اپ سوچئے کہ اس کا فائدہ جہاں مردوں کو ہے، وہاں عورتوں کو بھی ہے کہ ہماری ازدواجی زندگی پر سکون ہوتی ہے۔ ہم خوشیوں بھری زندگی گزارتے ہیں۔ ہمارے وطن عزیز کی بعض بے شمار ماڈرن خواتین جو امریکہ اور یورپ کو آئیڈیل سمجھتی ہیں، آج ان خواتین کی روشن خیالی کی وجہ سے ان کے خاندان رسوائی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں لیکن بچوں کے ساتھ جس مخلوق پر یورپ نے سب سے بڑا ظلم کیا ہے، وہ عورت ہے۔ ایک امریکی اخبارکی سروے رپورٹ کے مطابق امریکہ کی ساٹھ فیصد لڑکیوں نے بتایا کہ انہیں پہلا جنسی تجربہ باپ یا بھائی سے حاصل ہوا۔ امریکہ میڈیکل ایسوسی ایشن کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق امریکہ کی ہر چوتھی عورت کو اپنے شوہر یا بوائے فرینڈ سے زدو کوب ہونا پڑتا ہے اور بعض اوقات پٹائی کی شدت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ بچاری عورتیں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ چناچہ امریکہ میں ایسی عورتوں کی تعداد چار کروڑ سے بھی زائد ہے جن کو نہایت بیدردی سے پیٹا گیا ہے۔ انتیس جولائی 1991ء کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں خواتین پر ظلم و ستم کا یہ عالم ہے کہ ایک امریکی مصنفہ این جانز کی تحقیق کے مطابق امریکہ میں ہر سال بارہ ہزار بیویاں شوہروں کے ہاتھوں قتل ہو جاتی ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ قتل کی سزا زیادہ سے زیادہ چھ سال ہوتی ہے لیکن مسلسل ظلم و ستم سے تنگ آکر کوئی عورت مرد کو قتل کردے، تو عورت بیچاری ضمانت نہ ہونے کی وجہ سے سالہا سال تک جیلوں میں سڑتی رہتی ہے۔ نیشنل سنٹرٹیکس اور نیشنل مائنل ٹیکس سسٹم نے حالیہ رپورٹ میں لکھا ہے کہ امریکہ میں ہر سال دس سے چوبیس سال کی عمر میں 931670 لڑکیاں شادی سے پہلے مائیں بن جاتی ہیں۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں پندرہ سے اْنیس سال کی عمر میں دو لاکھ اور بیس سے چوبیس سال کی چار لاکھ بیاسی ہزار لڑکیاں بن بیاہی مائیں بن گئی ہیں۔ شدید ذہنی صدمات کے نتیجے میں امریکہ میں کم از کم ستر ہزار عورتیں ہر سال حرکت قلب بند ہوجانے سے یا دماغ کی رگ پھٹ جانے سے یکایک مر جاتی ہیں۔
امریکہ اور یورپ کے اکثر ملکوں میں خاندانی زندگی تباہ وبرباد ہو چکی ہے۔ برطانیہ میں بیس ہزار افراد سے بات چیت کرکے بی بی سی نے جو جائزہ مرتب کیا ہے، اس کے مطابق وہاں ایک چوتھائی گھرانوں میں روایتی کنبے رہتے ہیں یعنی میاں بیوی اور بچے۔ دو تہائی بغیر شادی اکٹھے رہتے ہیں یا تنہا زندگی گزارتے ہیں۔
روزنامہ جنگ لاہور اٹھائیس ستمبر 1991ء کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں شادی شدہ گھرانوں میں بھی طلاقوں کی بھر مار ہے اور ان علاقوں کے حوالہ سے حکومت جو اخراجات برداشت کرتی ہے، وہ 35ملین پاؤند سالانہ ہے ان حالات میں سب سے زیادہ معصوم بچے متاثر ہوتے ہیں جن کی تعداد فی الحال ڈیڑھ لاکھ سالانہ ہے، لیکن ایک اندازے کے مطابق اگلے چند برسوں میں تین ملین مرد و زن طلاق کے تجربے سے گزریں گے جن کے نتیجے میں ڈیڑھ ملین یعنی پندرہ لاکھ بچے متاثر ہوں گے۔سوچیے آج وہاں کیا صورت حال ہوگی؟
عورتوں کی آزادی، احترام اور مرد وزن کی مساوات کی دعویدار یورپی اقوام نے عورت کے ساتھ جو بہیمانہ سلوک روا رکھا ہے، اس کی ایک اور دردناک تصویر ٹائم میگزین کی تفصیلی رپورٹ میں نظر آتی ہے جس کے مطابق جرمنی، فرانس، چیکو سلواکیہ، رومانیہ ،ہنگری اور بلغاریہ کی بڑی بڑی شاہراہوں پر فاحشہ عورتیں قطار باندھے دکھائی دیتی ہیں۔ برلن اور پراگ کو ملانے والی بارہ کلومیٹر طویل شاہراہ غالباً دنیا کا ارزان ترین اور طویل ترین جنسی اڈہ ہے۔
اس طرح امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ہر سال سات لاکھ خواتین زنا بالجبر کی شکار ہوجاتی ہیں۔ میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر لوئی پرسٹو نے رپورٹ کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ جنسی تشدد کا شکار ہونے والی خواتین میں اکسٹھ فیصد کی عمر اٹھارہ سال سے بھی کم ہوتی ہے اور ان میں پچھتر فیصد دوستوں، آشناوں اور رشتہ داروں کی ہوس کا شکار ہوتی ہیں۔ بیس سے چالیس لاکھ عورتوں پر جسمانی تشدد اور انہیں بری طرح مارا پیٹا گیا ہوتاہے۔ اسکے علاوہ پندرہ سو خواتین کو ان کے آشناوں نے قتل کیا۔