منیب حسین
چند روز سے امریکی ذرائع ابلاغ میں مسلسل ایسی رپورٹس شائع ہو رہی ہیں، جن میں کہا جا رہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے ساتھ ساتھ ملک کا بھی بیڑا غرق کر رہے ہیں۔
یکم اگست کو امریکی میگزین ’فارن پالیسی‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں امریکی محکمہ خارجہ کا رونا رویا ہے۔ فارن پالیسی کی رپورٹ کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کے ملازمین کا مورال اس وقت بد ترین سطح پر ہے اور محکمے کا یہ حال ہے کہ بعض اوقات دیگر ممالک کے سُفَرا کو یہ تک معلوم نہیں ہو پاتا کہ متعلقہ امور میں انہیں محکمے کے کس عہدے دار سے بات کرنی چاہیے۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹِلرسن محکمہ خارجہ کے پالیسی ساز شعبے کی ہیئت تبدیل کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ 1947ء میں تشکیل دیے گئے اس چھوٹے مگر اہم شعبے میں کام کرنے والوں کی تعداد ہمیشہ 20 سے 25 کے درمیان رہی ہے، اور ان افراد کا کام آزادی کے ساتھ پالیسیاں بنا، تجزیے کرنا اور وزیر خارجہ کو براہِ راست مشاورت فراہم کرنا ہے۔ تاہم رپورٹ کے مطابق ریکس ٹلرسن اس شعبے میں کام کرنے والوں کی تعداد دو یا تین گنا کرنا چاہتے ہیں، اور مستقبل میں اس ادارے کی ہیئت بھی تبدیل کیے جانے کا خدشہ ہے۔
فارن پالیسی کی رپورٹ کے مطابق محکمہ خارجہ کی ساتویں منزل پر راہ داریوں میں آج کل اجنبیوں کا رش لگا رہتا ہے۔ پالیسی ساز شعبے کے ملازمین کا خیال ہے کہ ریکس ٹِلرسن کے حاشیہ بردار محکمے میں ایک الگ سلطنت کے قیام کے لیے سرگرداں ہیں، جس کے لیے ان اجنبیوں میں سے درجنوں کو بھرتی کیا جائے گا اور وہ شعبہ پالیسی سازی کے متبادل کے طور پر ریکس ٹلرسن کو مشاورت فراہم کریں گے۔ اس طرح محکمے کے اس اہم شعبے میں برسوں سے کام کرنے والے تجربہ کار ملازمین کو وزیر خارجہ سے دور کردیا جائے گا۔
محکمہ پالیسی سازی کے تجربے کار ملازمین کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ صدر ٹرمپ اور ان کی ٹیم کو شعبے میں پہلے سے کام کرنے والے ملازمین کی وفاداری پر شکوک و شبہات ہیں۔ ان تجربے کار ملازمین کا کہنا ہے کہ محکمہ خارجہ کو اپنی تاریخ کے غیرمعمولی حملے کا سامنا ہے، کیوں کہ صدر ٹرمپ اور ان کی ٹیم وزارت خارجہ کی پہلے سے جاری سرگرمیوں کو کم کرنا چاہتے ہیں یا پھر ان سے متعلق جاننا ہی نہیں چاہتے، اور ان کا یہ طرز عمل دہائیوں پر محیط امریکی سفارتی ورثے کے زوال کے خدشات پیدا کر رہا ہے۔
فارن پالیسی کی رپورٹ کے مطابق محکمہ خارجہ میں کام کرنے والے سابق اور موجود 30 سے زائد اعلیٰ عہدے داران کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے وزارت کے کئی اہم عہدوں پر تقرریاں نہ کرنے سے بعض اوقات غیرمستحکم پالیسیاں اختیار کی جا رہی ہیں، جب کہ وائٹ ہاؤس بھی اعلیٰ عہدے داران کو خودمختاری کے ساتھ کوئی فیصلہ کرنے سے روکنے کی منظم کرششیں کر رہا ہے۔ اس طرز عمل کے باعث ایک طرف امریکی سفارت کاری کو نہ صرف نقصان پہنچ رہا ہے، بلکہ دنیا بھر میں امریکا کے طاقت ور کردار کے لیے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق محکمے کے ملازمین کو نئے وزیر خارجہ ریکس ٹِلرسن سے بہت زیادہ اُمیدیں تھیں، تاہم ٹِلرسن کی جانب سے ان ملازمین کو خود سے دور رکھنے اور عدمِ تحفظ کا اظہار کرنے کے باعث یہ اُمیدیں دم توڑ گئی ہیں۔ اسی طرح امور خارجہ سے متعلق فیصلے بھی اب محکمہ خارجہ کے بجائے وائٹ ہاؤس یا محکمہ دفاع پینٹاگون میں ہو رہے ہیں۔
دوسری جانب صدر ٹرمپ مختلف محکموں میں عام ملازمین کے ساتھ ساتھ آئے روز اعلیٰ سرکاری عہدے داران اور اپنے ہی کسی ساتھی کو برطرف کردیتے ہیں یا وہ خود ہی استعفا دے کر چلا جاتا ہے، جس کی وجہ ٹرمپ کا ان پر عدمِ اعتماد یا ان کا صدر پر عدمِ اعتماد ہے۔ یوں ہر مہینے کسی اعلیٰ سرکاری عہدے دار کے گھر جانے کی خبریں ذرائع ابلاغ کی زینت بنتی رہتی ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ کے اندر اس تناؤ کا سب سے پہلے اظہار رواں سال فروری میں اس وقت ہوا، جب ایک ماہ قبل ہی ٹرمپ کے متعین کردہ مشیر قومی سلامتی مائیکل فِلن نے اپنے عہدے سے استعفا دے دیا۔ مائیکل فِلن پر روسی سفارت کار کے ساتھ رابطے کا الزام عائد کیا گیا تھا اور نومبر 2016ء کے انتخابات میں مبینہ روسی مداخلت کے باعث صدر ٹرمپ خود شدید دباؤ میں تھے، اس لیے بہ ظاہر انہیں اس بھنور سے نکلنے کے لیے اپنے ہی ساتھی مائکل فلن کی قربانی دینی پڑی۔
اس کے بعد مئی کے مہینے میں ٹرمپ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کے سربراہ جیمز کومی کو ان کے عہدے سے فارغ کر دیا۔ 2013ء میں اس منصب پر فائز ہونے والے جیمز کومی نے اپنی برطرفی کے بعد کانگریس کی کمیٹی کے سامنے واضح کیا کہ صدر ٹرمپ نے ان پر دباؤ ڈالا تھا کہ وہ انتخابات میں مبینہ روسی مداخلت سے متعلق جاری تحقیقات کو بند کردیں۔ تاہم جیمز کومی نے ٹرمپ کی بات ماننے سے انکار کردیا، جس کے بعد ٹرمپ نے انہیں اس عہدے سے فارغ کردیا۔
اسی طرح مئی ہی کے مہینے میں انتخابات کے دوران روسیوں سے رابطے کے الزام میں وائٹ ہاؤس کے رابطہ کاری کے سربراہ مائک ڈوبکی کو اپنے عہدے سے استعفا دینا پڑا۔ انہیں اس عہدے پر تعینات ہوئے 3 ماہ ہی ہوئے تھے۔ اس کے بعد گزشتہ ماہ وائٹ ہاؤس کے پریس سیکرٹری شان اسپائسر نے اپنے عہدے سے استعفا دے دیا۔ کہا جا رہا ہے کہ صدر ٹرمپ کے اینتھنی اسکارامُوچی کو وائٹ ہاؤس کا سربراہ رابطہ کاری مقرر کرنے پر اسپائسر نے احتجاجاً اپنے عہدے سے استعفا دیا۔
اسکاراموچی کی تعیناتی کے تناظر ہی میں گزشتہ ہفتے وائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف رائنس بریبس نے بھی استعفا دے دیا۔ تاہم ایک ہفتے میں پے در پے وائٹ ہاؤس کے 2 اہم عہدے داران کے استعفے کا باعث بننے والے اینتھنی اسکاراموچی کو صدر ٹرمپ نے خود ان کے عہدے سے ہٹا دیا۔ اسکاراموچی کو 10 روز قبل ہی وائٹ ہاؤس میں سربراہِ رابطہ کاری تعینات کیا گیا تھا۔
کہا جا رہا ہے کہ امریکی تاریخ میں وائٹ ہاؤس میں اتنے بڑے پیمانے پر اعلیٰ عہدے داران کا یوں جلد آنا جانا کبھی دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔ امریکی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ سیاسی طور پر نابالغ اور بالکل ہی غیرتجربہ کار ہیں۔ انہیں خود سمجھ نہیں آ رہا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ وہ آئے روز ٹوئٹر پر اپنے ساتھیوں، مخالفین، ذرائع ابلاغ اور دیگر ممالک کو نہایت ہی غیرسنجیدہ اور غیرمہذب انداز میں تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں، جو ان کے منصب کے سراسر منافی ہے۔
’وال اسٹریٹ جنرل‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی صدر کی اپنی ہی ٹیم میں شدید اختلافات ہیں۔ اس بات کا پتا یوں بھی چلتا ہے کہ اسکاراموچی کی برطرفی کے بعد صدر ٹرمپ نے اپنے ایک ٹویٹ میں وضاحت کی کہ وائٹ ہاؤس میں کوئی انتشار نہیں ہے۔ امریکی صدر ان میڈیا رپورٹس کی جانب اشارہ کر رہے تھے جن کے مطابق وائٹ ہاؤس کا عملہ ایک دوسرے سے لڑتا رہتا ہے۔
اسی طرح وائٹ ہاؤس کے کئی عہدے داران سرکاری معاملات میں ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر اور بیٹی ایوانکا کی مداخلت کا شکوہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جیرڈ کشنر تو ٹرمپ کے مشیر ہیں، جب کہ ایوانکا وائٹ ہاؤس میں بلامعاوضہ خدمت انجام دے رہی ہیں، تاہم اب تک ان کی خدمت یہی نظر آئی ہے کہ وہ اپنے والد کے ساتھ غیرملکی دورے کرتی ہیں اور ان دورے میں خاتون اول سے بھی آگے نظر آتی ہیں۔
دوسری جانب امریکی صدر کو اپنے پیش رو بارک اوباما کے صحت سے متعلق پروگرام ’اوباما کیئر‘ کو منسوخ کرکے اپنے بنائے ہوئے منصوبے کو نافذ کرنے میں مسلسل ناکامیوں کا سامنا ہے۔ اوباما کیئر کا خاتمہ ٹرمپ کے بڑے انتخابی نعروں میں سے تھا۔ اسی طرح تارکین وطن کی امریکا آمد کو روکنا بھی ان کی اولین ترجیح تھی، تاہم تارکین وطن کا ملک کہلانے والے امریکا کے عدالتی نظام نے ٹرمپ کے ان خوابوں کو بھی شرمندۂ تعبیر نہ ہونے دیا۔
غرض صدر ٹرمپ کی ناکامیوں کی داستان نہایت طویل ہے۔ اس ساری صورت حال کو امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے ’ٹرمپ کی ناؤ ڈوبنے والی ہے‘ سے تعبیر کیا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ میں 28 جولائی کو کیثلین پارکر نامی صحافی نے اپنے آرٹیکل میں لکھا ہے کہ ٹرمپ کی کشتی تیزی سے اس گلیشئر کی جانب بڑھ رہی ہے، جو اسے بلکل ٹائٹینک کی طرح غرق کردے گا اور ٹرمپ کے بہت کم حامی ہی بچاؤ کی کشتیوں کا انتظار کرتے پائے جائیں گے۔ مطلب یہ کہ ٹرمپ کا بیڑا غرق ہونے سے قبل ہی ان کے اکثر حامی انہیں چھوڑ چکے ہوں گے۔