از:پروفیسر ڈاکٹر سید وقار احمد رضوی
یمن جنوبی عرب میں ہے۔ یہاں قبل اسلام عمالیق، اہل معین، عاد، سبا اور حمیر کی عظیم الشان سلطنتیں تھیں۔ صنعا اس کا دارالخلافہ ہے۔ سدمآ رب یہیں تھا۔ دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے عرب کی تہذیب یعنی یمن کی تہذیب ہے جو 3ہزار سال پرانی ہے اور جس کا پایۂ تخت مشہور شہر مآ رب تھا۔ اس تمدن کا بانی عرب کا مشہور فاتح سبا بن یشجب بن یعرب بن قحطان تھا۔ جس کا اصل نام عمر یا عبدشمس ہے، لیکن تاریخ میں سبا کے نام سے مشہور ہے۔ یمن کے معنی داہنی جانب کے ہیں۔ چونکہ یمن کعبہ کے داہنی طرف ہے اس لیے اس کو یمن کہتے ہیں یا پھر یہ علاقہ اپنی سرسبزی و شادابی کی وجہ سے بابرکت ہے اس لیے اسے یمن کہتے ہیں کیونکہ یُمن کے معنی خیر و برکت کے ہیں۔
سبا کی تاریخ ۱۲۰۰ء ق۔م سے شروع ہوتی ہے اور یہی زمانہ اس کا دارالسلطنت مآ رب کی تعمیر کا ہے۔ مآ رب یمن کے مشرقی جانب تھا۔ اس میں بہت گنجان باغات تھے۔ مختلف پھل، میوے، چھوہارے اور دار چینی کے درخت تھے جن کی خوشبو سے شہر مہکتا تھا۔ ہوائیں فرحت بیز تھیں۔ چناں چہ نفحۃ الیمن عربی کی ایک کتاب بھی جو پڑھائی جاتی ہے اس کے معنی ہیں یمن کی خوشبو۔ قوم سبا تجارت کرتی تھی۔ ان کی تجارت اعلیٰ پیمانے کی تھی۔ سونا، چاندی، جواہرات اور خوشبو دار چیزیں مال تجارت تھا۔
خوشبو اللہ تعالیٰ کا تحفہ تھا جو ملک یمن کو ملا۔ تجارت کے علاوہ یہاں زراعت اور کاشتکاری بھی ہوتی تھی۔ تجارت میں یمن کے باشندے آگے تھے۔ یمن کے لوگ سامان لے کر ہندوستان، افریقا، بحرین، شام جاتے تھے۔
سدّ مآ رب اور سیل عَرِم
مآ رب یمن کے ایک شہر کا نام تھا جو یمن کا پایۂ تخت تھا۔ اب اس کا نام صنعا ہے۔ برسات میں پہاڑوں سے جو پانی بہہ کر آتا تھا وہ ریگستانوں میں پھیل کر ضائع ہو جاتا تھا۔ دریا بھی گرمی میں خشک ہوجاتے تھے۔ قحط آب کی اس مشکل کو دور کرنے کے لیے سد مآ رب تعمیر کیا گیا جس کا قرآن مجید نے سیل عرم کے سلسلے میں ذِکر کیا ہے۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ یہ ڈیم (سد) فن تعمیر کا اعلیٰ تکنیکی نمونہ تھا اور اس قدر مضبوط تھا کہ کئی صدیوں تک پانی کے صدموں کو برداشت اور مخالف ہوائوں کا مقابلہ کرتا رہا۔ اس کے پانی سے وادیاں سرسبز و شاداب ہوگئی تھیں۔ جب قحطانی عربوں کی حکومت کمزور ہوئی،اس بند کی حالت ابتر ہونے لگی اور اس کی مرمت نہ ہوسکی اور بند منہدم ہونے لگا۔ بعد میں یہ بند ٹوٹ گیا۔ سیلاب آیا اور سب کچھ بہا کر لے گیا۔ جسے سیل عرم بھی کہتے ہیں۔
تب یہاں کے قبائل دوسرے ملکوں میں جا کر آباد ہوگئے۔ چناں چہ دوسری صدی عیسوی کے وسط میں شام میں بنو غسان، عراق میں بنو اسد، مدینہ میں اوس و خزرج، یمن میں ازداور مکہ میں بنو قضاعہ آباد ہوئے۔
فن تعمیر میں قوم سبا کو مہارت حاصل تھی۔ ان کے مکان کشادہ اور ہوا دار ہوتے تھے۔ سد مآ رب 3پہاڑوں کے درمیان واقع تھا۔ بڑی بڑی چٹانوں سے اس کی تعمیر کی گئی تھی۔ بند میں اوپر نیچے 3دہانے تھے۔ ہر دہانے میں دس دس کھڑکیاں تھیں۔ بند کے سامنے ایک بڑا حوض تھا۔ اس میں سے 12نہریں نکلتی تھیں۔ آبپاشی کے وقت بند کی کھڑکیاں درجہ بدرجہ کھول دی جاتی تھیں۔ پانی حوض میں جمع ہوتا تھا، پھر حوض سے نہروں میں جاتا تھا۔ نہروں سے زراعت اور باغات کو پانی جاتا تھا۔
یہ قوم سبا کی تکنیکی مہارت کا بے مثل کمال تھا۔ اس سے ریگستان، لالہ زار بن گیا اور ملک کو قحط آب کی مصیبت سے نجات مل گئی تھی۔
(معجم البلدان، ج ۷، ص ۳۰۰)
یمن میں سبا کی عظیم الشان سلطنت تھی۔ ملکہ سبا بلقیس کا تعلق اسی خاندان سے تھا جس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی دعوت توحید کو قبول کیا تھا اور وہ موحد ہوگئی تھی۔ یہاں کے بادشاہ تاج پہنتے تھے۔ جو جواہرات سے تیار کیا جاتا تھا۔ قوم سبا، ستارہ پرست تھی۔ سورج کی پرستش بھی کرتی تھی۔ جب بلقیس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی دعوت توحید کو قبول کیا تو مملکت سبا میں توحید کا چرچا ہوا لیکن اس کے بعد پھر انہوں نے اعراض کیا۔ معصیت کاری اور شراب نوشی ان کا مشغلہ بن گئی۔ یہاں تک کہ ان کے گناہوں کی وجہ سے اللہ کا عذاب آیا۔ سد مآ رب برسات کے پانی سے ٹوٹ گیا۔ ہر طرف پانی پھیل گیا۔ کھیتیاں اُجڑ گئیں۔ جو زمین سرسبز و شاداب تھی، اس میں ریت ہی ریت نظر آنے لگی۔ باغات تباہ و برباد ہوگئے، زمین بنجر ہوگئی۔ قوم سبا کی بربادی ضرب المثل بن گئی اور یہ کہا جانے لگا کہ وہ خاندان سبا کی طرح برباد ہوگیا۔ سبا کی بربادی اس لیے ہوئی کہ وہ عیش و تنعم میں پڑ گئے تھے۔ سیاہ کاریاں بڑھ گئی تھیں۔ بنی اسرائیل کی طرح اللہ کے انعامات کو بھول کر کفران نعمت کرتے تھے۔ جب کہ اس سے پہلے عاد و ثمود کی قومیں بھی تباہ ہوچکی تھیں۔
یمن میں بنو قحطان رہتے تھے۔ حمیر اور کہلان، قحطان کے اصولی قبائل تھے۔ یہاں حمیری زبان رائج تھی جو عربی کی ایک شاخ تھی۔ یعرب بن قحطان کی نسل میں 2لڑکے حمیر اور کہلان ہوئے، یہ قحطانیہ ہیں۔ ان کی اولاد قحطانیہ کہلاتی ہے۔
امم سامیہ اولی کا مسکن یہی علاقہ یمن تھا۔ عاد، ثمود، جرہم، طسم، جدیس، عملیق، عبدضخم یہیں آباد تھے، جو دست برد زمانہ کے ہاتھوں نیست ونابود ہوئیں۔ مزید قحطانی قبائل کے نام یہ ہیں:
قضاعہ، کندہ، طے، ازد، غسان، اوس و خزرج۔ یہ سب قحطانی قبائل ہیں۔ ازد کے 3بیٹے غسان، اوس اور خزرج یہ تینوں قبیلوں کے نام بھی ہوئے۔ اوس و خزرج یمن سے میدنہ میں آکر آباد ہوئے۔
بنو قحطان ۲۵۰۰ ق۔م۔ ت۔ یہ یمنی قبائل تھے۔ ان کے پدر اعلیٰ کا نام قحطان تھا، اس لیے بنو قحطان کہلاتے ہیں۔ قحطان کے تین بیٹے مشہور ہوئے، یعرب حضرموت، سبا۔ یعرب بن قحطان یمن کا سب سے پہلا بادشاہ تھا۔ یعرب بن قحطان کی نسل سے عرب متعربہ ہوئے۔ حضر موت قحطان کا دوسرا بیٹا تھا۔ اس کی اولاد نے یمن کے جس حصے کو اپنا مسکن بنایا وہ آج تک حضر موت کے نام سے موسوم ہے۔ بنو حضرموت ایک مستقل حکومت تھی۔ جزائر ہند، جاوا، سماٹرا ان کی نوآبادیاں تھیں۔ سبا قحطان کی سب سے مشہور شاخ تھی۔ قرآن مجید نے سورئہ سبا میں اس کا ذِکر کیا ہے۔
حضرموت، صنعا اور نجران یمن کے مشہور شہروں کے نام ہیں۔ ہمدان، کہلان کی ایک شاخ تھی۔ بدیع الزماں ہمدانی کا تعلق اسی ہمدان سے تھا۔ جس کی کتاب مقامات بدیع مشہور ہے ۔ اسی کی طرز پر مقامات حریری لکھی گئی جو پڑھائی بھی جاتی ہے۔ شاہان یمن جو تبع یا تبابعہ کہلاتے ہیں حمیر کی اولاد تھے۔ یمن کو حبشیوں نے فتح کیا۔ یمن کے حبشی بادشاہ ابرہہ نے خانہ کعبہ پر حملہ کیا اور تباہ و برباد ہوا۔ یہ واقعہ ۵۷۰ء کا ہے۔ اس سال آں حضرت کی ولادت باسعادت ہوئی۔
امم سامیہ اولی عاد و ثمود کو کہتے ہیں۔ ان کا مسکن یمن تھا۔ ان کو عرب بائدہ بھی کہتے ہیں۔