طویل عرصے بعد وزیر خارجہ کی آواز

338

Edarti LOHپاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ کئی برس کے بعد پاکستان کو وزیر خارجہ نصیب ہوا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ کون اس منصب پر براجمان ہے یہ بات اہم ہے کہ ایک مکمل وزیر خارجہ پاکستان کے پاس ہے۔ آج کل دنیا بھر میں ممالک اپنے مفادات کے حوالے سے دفتر خارجہ اور وزیر خارجہ کے ذریعے ہی معاملات چلاتے ہیں پاکستان کو اس حوالے سے گزشتہ کئی برسوں سے شدید مشکلات پیش آرہی تھیں، ہر کام مشیر خارجہ کے توسط سے ہورہاتھا جب کہ مشیر خارجہ اور وزیر خارجہ میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔ یا توامریکا جیسے ملک کا مشیر خارجہ ہو جس کا وزن اس کے ملک کی طاقت کی وجہ سے زیادہ ہوتا ہے ورنہ عموماً اسے حکومت اور ملک کی کمزوری سمجھا جاتا ہے، انہی مکمل وزیر خارجہ خواجہ آصف نے حلف اٹھانے کے بعد جو پہلا بیان دیا ہے وہ بڑا خوش آئند ہے۔ انہوں نے کشمیریوں کی اخلاقی و سفارتی حمایت جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ خطے کا امن کشمیر کے مسئلے کے حل سے مشروط ہے۔ خواجہ آصف نے کشمیر کے حوالے سے سودے بازی نہ کرنے کی بات بھی کی ہے اور بھارت پر جنگ بندی معاہدے پر عمل نہ کرنے کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ ان کا یہ کہنا بھی بجا ہے کہ ہم حالات معمول پر لانا چاہتے ہیں لیکن بھارت مثبت جواب نہیں دے رہا۔ یہ باتیں اس سے قبل مشیر خارجہ کی سطح پر کہی جاتی رہی ہیں۔یا سیکرٹری خارجہ اس پر بات کرتے رہے ہیں لیکن اس بات کا وزن وزیر خارجہ کی زبان سے ادائیگی کے نتیجے میں کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ وزیر خارجہ کے منصب پر خواجہ آصف کی موجودگی سے بعض مقتدر حلقوں کو شکایت ہوسکتی ہے لیکن اس منصب کو طویل عرصے تک خالی رکھنے سے کشمیر سمیت بہت سے امور پر پاکستان کے موقف کی کمزوری کا اظہار ہورہاتھا۔ پاکستان کشمیریوں کی اخلاقی و سفارتی حمایت کس حد تک کرتا ہے یہ الگ بحث ہے اس پر اعتراض بھی کیا جاسکتا ہے کہ یہ سب زبانی جمع خرچ ہے لیکن یہ زبانی جمع خرچ بھی جس سطح پر کیا جارہاتھا اب اس سے بڑھ کر شروع ہوا ہے۔ پاکستانی قوم تو اخلاقی اور سفارتی سے بڑھ کر کشمیریوں کی مدد کرنا چاہتی ہے۔ ان کی مالی مدد بھی کی جانی چاہیے اور افرادی قوت سے بھی ان کی نصرت کی جانی چاہیے۔ بھارت ڈھٹائی سے 10 لاکھ فوج متنازع علاقے میں لیے بیٹھا ہے تو پاکستان کو بھی ڈٹ کر بات کرنے کا حق ہے۔ ہاں خواجہ آصف کے اس دعدے پر ضروربات کی جانی چاہیے کہ کشمیر پر سودے بازی نہیں کریں گے۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ جنرل پرویز کشمیر پر سودے بازی کرنے کی باتیں کھلے عام کرتے تھے، ان کی گرفت نہیں ہوئی اور اب مسلم لیگ ن کے وزیراعظم آزاد کشمیر نے تو سودے بازی سے بڑھ کر بات کی ہے۔ انہوں نے تو پاکستان اور کشمیریوں کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی تھی۔ اب مکمل وزیر خارجہ آگئے ہیں تو وہ وزیراعظم آزاد کشمیر کے بیان کا نوٹس لیں، ان کی جانب سے تردیدی بیان کی کوئی حیثیت نہیں پورے ملک کے اخبارات نے اس کو شائع کیا تھا یہ ایسا بیان ہے کہ کوئی اپنی مرضی سے اسے گھڑ کر شائع نہیں کرسکتا۔ امید ہے کہ خواجہ آصف صاحب اس جانب بھی توجہ دیں گے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کشمیر کمیٹی کے نام سے اکثر ایک روایتی کمیٹی بنادی جاتی ہے جس میں قومی اسمبلی سے روایتی طور پر ایک ہی نام لیا جاتا ہے۔ کشمیر کے لیے قربانیاں دینے والی اور پارٹیاں اور دیگر ارکان بھی ہیں ان کو اس سے بوجوہ دور رکھا جاتا ہے۔ اب جب کہ ایک مکمل وزیر خارجہ کا تقرر ہوگیا ہے تو ایک فعال کشمیر کمیٹی بھی قائم کی جائے ۔ روایتی کشمیر کمیٹی محض خانہ پری اور سودے بازی کے لیے کسی کو منصب عطا کرنے کے لیے نہ بنائی جائے۔ اسی طرح یہ کام وزارت خارجہ کا بھی ہے کہ وہ کشمیر کاز پر عالمی سطح پر مہم چلائے۔ عبوری وزیراعظم کے پہلے خطاب میں بھی کشمیریوں پر بھارتی مظالم بے نقاب کرنے کی ضرورت پر زور دیاگیا تھا تاہم بھارتی مظالم کے بارے میں دنیا جانتی ہے کہ یہ بے نقاب ہی نہیں اب بے لباس بھی ہوگئے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ پہلے اس مسئلے پر بھرپور سفارتی مہم چلائی جائے۔ بھارت کو کشمیر کے دریاؤں پر ڈیم بنانے سے روکا جائے، مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کے ایجنڈے میں دوبارہ لایا جائے، کشمیر میں باہر سے پنڈتوں کو لاکر بسانے کے معاملے کو از سر نو اٹھایا جائے تاکہ استصواب کے وقت وہ اثر انداز نہ ہوسکیں، بھارت نے اس حوالے سے بھی ایک منصوبہ بنا رکھا ہے، جب مکمل وزیر خارجہ ہوگا تو یہ سارے کام ہوں گے۔ خواجہ آصف صاحب اگر ایک دفعہ دنیا بھر میں اپنے نمائندے بھیجیں گے اور خود نکلیں گے تو دنیا میں مسئلہ کشمیر پھر زندہ ہوگا۔ ایک بات انہیں بھی یاد رکھنی چاہیے کہ کشمیر کو اپنی حکومت کی مقبولیت یا آنے والے انتخابات کے لیے استعمال کرنا ان کے لیے اور ان کی پارٹی کے لیے نہایت بدنما داغ ہوگا۔ کشمیر کو محض سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا رویہ ترک کیا جائے اور اب کشمیریوں کے لیے کوئی حقیقی کام بھی کیا جائے۔ اگر حکومت پاکستان کوئی ٹھوس قدم اٹھاتی ہے اور کشمیریوں کو اس سے قوت ملتی ہے تو انتخابات میں انہیں از خود اس کا فائدہ ہوگا۔