انسان کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات کا مقام عطا فرمایا ہے۔ انسان خلیفۃ اللہ فی الارض ہے۔ جب انسان تہذیب و شائستگی کا دامن چھوڑ دے تو وہ بہت نیچے گر جاتا ہے۔ وطن عزیز میں آج کل عجیب ماحول پیدا کر دیا گیا ہے، جو تباہ کن اور بھیانک نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔ انسان کے اخلاق و کردار کو گھن لگ جائے تو اس کا علاج بڑا مشکل ہوجاتا ہے۔ زبان کا غلط استعمال ایسے زخم لگاتا ہے، جو کبھی مندمل نہیں ہوتے۔ ہمارا دشمن ہر جانب سے ہمارے گرد گھیرا تنگ کر رہا ہے اور ہم پاکستانی ہر طرف سے آنکھیں بند کرکے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں محو ہیں۔ آج کل کا دور میڈیا کا دور ہے۔ وقتِ حاضر میں پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا سے کہیں وسیع تر سوشل میڈیا کا میدان ہے۔
سیاسی شخصیات کے آپس میں اختلافات فطری طور پر ہوتے ہیں۔ ان کے اظہار کے لیے مہذب طریقے پوری دنیا میں رائج ہیں۔ سیاسی میدان میں مہذب قومیں شفاف طریقے سے انتخابات کا اہتمام کرتی ہیں اور عوام الناس کو حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنی آزادانہ مرضی سے جسے چاہیں ووٹ کے ذریعے منتخب کرلیں۔ منتخب ہونے والا اور شکست کھانے والا دونوں امیدوار اور دونوں پارٹیاں نتیجہ سننے کے بعد ایک دوسرے سے ہاتھ ملاتے اور نتائج کو تسلیم کرتے ہیں۔ اگر کسی بے ضابطگی کا خدشہ اور امکان نظر آئے تو اس کے لیے متاثرہ فریق ادارتی نظام سے رجوع کرسکتا ہے۔ ہمارے ملک میں المیہ یہ ہے کہ عوام اپنی آزادانہ رائے کا استعمال نہیں کرسکتے۔ اسی عامل نے ہمارے ہر شعبۂ زندگی کو اپاہج کر دیا ہے۔ تمام سیاسی قوتوں کو اس جانب مثبت انداز میں سوچ بچار کرکے پیش قدمی کرنے کی ضرورت ہے۔
اگر آپ کسی شخصیت سے اختلاف رکھتے ہیں تو بھی اس کے انسانی حقوق اور معاشرتی احترام کو مجروح نہیں کیا جاسکتا۔ اب کسی اخبار کو اٹھا کر طائرانہ نگاہ سے دیکھ لیں یا کسی چینل کے سامنے چند لمحے بیٹھ جائیں، آپ پریشان ہوجائیں گے کہ سارا تالاب ہی گندا نظر آتا ہے۔ اگر آپ سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں تو ہر لمحے آپ کے واٹس ایپ، ٹوئٹر اور موبائل پر ایسی چیزیں کثرت اور تسلسل کے ساتھ آتی ہیں کہ آپ سوچتے ہیں کہ اس ذہنی عذاب سے نجات کیسے ممکن ہے۔ مرد و خواتین کے لیے اللہ اور اس کے رسول نے حدود متعین کیے ہیں۔ عصمت و عفت اور شرم و حیا اسلام کی پہچان ہے۔ سیاسی اسکینڈل کے ساتھ ساتھ اخلاقی اسکینڈلز کی میدانِ زندگی میں ایک دوڑ لگ گئی ہے۔ ’’جیسے کو تیسا‘‘ اور ’’اینٹ کا جواب پتھر‘‘ کا اصول اپنا کر آستینیں چڑھائے سیاسی قائدین و کارکنان نے وہ ہا ہا کار مچا دی ہے کہ خدا کی پناہ! الزام لگتے ہیں پھر انہیں بہت برے انداز میں پورے معاشرے میں اچھالا جاتا ہے۔ ان کی حقیقت کیا ہے، یہ اللہ ہی جانتا ہے۔
سیاسی اور سماجی رہنماؤں، دینی و مذہبی قائدین، ذرائع ابلاغ میں مصروفِ عمل شخصیات، سبھی کو یہ خیال رکھنا چاہیے کہ اگر ان کے اخلاق و کردار اور زبان و بیان سے شائستگی رخصت ہوجائے گی تو عام آدمی کا کیا حال ہوگا۔ جو بھی کسی پر الزام لگائے، اُسے ثابت کرنا اس کی ذمے داری ہوتی ہے اور جس پر الزام لگے، اسے دفاع کا حق دیے بغیر مجرم قرار دینا اسلام اور انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔ اس وقت ملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیوں کے علاوہ دیگر سیاسی دھڑوں کے قائدین بھی عدالتوں سے نکل کر چوکوں، چوراہوں میں ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کر رہے ہیں۔ نہلے پر دھلا کی یہ جنگ انتہائی بدبودار اور گھناؤنی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ راتوں رات یہ سارے کیس بازار میں آگئے ہیں۔ ہمارا دشمن ہر طرح ہمارے خلاف سازشیں کرتا ہے اور ہم باہمی اتحاد و اتفاق کے بجائے مخالفانہ بیان بازی، کردار کشی اور گالم گلوچ کی دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں۔
مال و دولت کی تباہی اور کرپشن بھی انتہائی نقصان دہ ہے، مگر اخلاق و شائستگی کا جنازہ نکل جانا تو بہت بڑا المیہ ہے۔ جب لیڈر اس سفر پر روانہ ہوتے ہیں تو ان کے کارکنان کیوں پیچھے رہیں۔ الیکٹرونک میڈیا میں ہر بڑی سیاسی قوت کے چاہنے والے اینکرز بھی موجود ہیں اور مالکان بھی۔ وہ اس جنگ میں ایک دوسرے کو چت کرنے کے لیے جو طریقے اپناتے ہیں، وہ انتہائی تشویش ناک ہیں۔ صحافت میں دیانت نہ ہو اور تحریر و تقریر میں اخلاقی اقدار اور انسانی شائستگی غائب ہوجائے تو انسان جانوروں سے بدتر ہوجاتا ہے۔ ہمارا دشمن ہمیں ہر جانب سے گھیرے میں لے رہا ہے۔ سابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے میاں نواز شریف کے استعفے سے قبل پریس کانفرنس میں خبردار کیا تھا کہ ملک و قوم کو تباہ کرنے کے لیے کئی عالمگیر سازشیں سرگرم عمل ہیں۔ بلاشبہ یہ ایک باخبر سیاست دان کی وارننگ تھی، جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
ملکی سیاست و معاملات کے اس نازک موڑ پر تمام ابنائے اسلام اور دخترانِ ملت سے درخواست ہے کہ وہ یہ طرزِ عمل ترک کردیں۔ جن لوگوں نے واقعتا زیادتیاں کی ہیں، وہ متاثرہ فریق سے معافی بھی مانگیں اور ان کے جذبات کو مجروح کرنے کا معاوضہ بھی دیں۔ اگر جرم ایسا ہے جو قابل تعزیر ہے تو اس پر بھی قانون و انصاف کے تقاضوں کو عملی جامہ پہنایا جائے۔ اس کے ساتھ لازمی ہے کہ غلط الزام لگانے والوں کا بھی آڈٹ کیا جائے اور حقائق کو عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔ آج کے بچے اور نوخیز نسل کل کے حکمران اور ارباب حل و عقد ہوں گے۔ اس پر تعفن ماحول میں پروان چڑھنے اور میڈیا کے زہرناک شور ہنگامے میں سانس لینے والی یہ نسل کیا اخلاق و کردار لے کر میدان میں آئے گی۔ خدا کے لیے اپنی آنے والی نسلوں کو تباہی کے سمندر میں دھکیلنے سے اجتناب کیجیے۔ حضور پاکؐ جن کا ہم سب کلمہ پڑھتے ہیں، فرماتے ہیں کہ مومن جھوٹا اور فحش گو نہیں ہوتا۔ اہلِ ایمان! ذرا سنجیدگی کے ساتھ اس عاجزانہ استدعا پر توجہ فرمائیے۔