سید علی گیلانی کی پوری زندگی اسی جدوجہد سے عبارت ہے۔ انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز جماعت اسلامی ریاست جموں و کشمیر کے ساتھ اپنی وابستگی سے کیا جو ریاست کی آزادی کے ساتھ ساتھ اس میں اسلامی انقلاب برپا کرنا چاہتی تھی۔ اس طرح دعوت و تبلیغ کے ساتھ تحریک آزادی کارواں بھی آگے بڑھتا رہا۔ سید گیلانی نے ببانگ دہل اعلان کیا کہ وہ بھارت کے ساتھ کشمیر کے الحاق کو نہیں مانتے اور ریاست پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف پُرامن سیاسی جدوجہد کا حق رکھتے ہیں۔ وہ جب اپنے اس حق کو بے باکی سے استعمال کرنے لگے اور مقبوضہ وادی ان کی آواز سے گونجنے لگی تو انہیں پہلی مرتبہ 28 اگست 1962ء کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا، جہاں ان کے کچھ ساتھی پہلے سے موجود تھے، مقبوضہ ریاست میں گرفتاریوں اور پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شیخ عبداللہ کے دور حکومت سے ہی شروع ہوگیا تھا وہ بلاشبہ ایک مقبول عوامی لیڈر تھے لیکن بھارت کے ساتھ سودے بازی کے نتیجے میں ان کی مقبولیت گہنا گئی تھی اور ان کے مقابلے میں سید علی گیلانی کی صورت میں ایک نئی سیاسی قیادت اُبھر رہی تھی جو کشمیری عوام کے حقیقی جذبات کی ترجمان تھی۔ شیخ عبداللہ اس حال میں دُنیا سے رخصت ہوئے کہ ان پر اپنے وطن سے غداری کا ٹھپا لگ چکا تھا۔ سید علی گیلانی نے عوامی سطح پر قیادت کے خلا کو پُر کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ انہوں نے بھارت کو باور کرایا کہ کشمیری عوام کسی صورت بھی ریاست پر اس کے ناجائز قبضے کو تسلیم نہیں کریں گے اور آزادی کے حصول تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ گیلانی صاحب کا اصولی موقف یہ ہے کہ کشمیر پاکستان کا قدرتی حصہ ہے اور اس کی آزادی پاکستان کے ساتھ الحاق سے مشروط ہے۔ کشمیری عوام بھی ان کے اس موقف کی دل سے تائید کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس وقت کشمیر کی تحریک آزادی کے واحد ترجمان اور مقبول ترین لیڈر ہیں۔
سید علی گیلانی نے اپنے طے شدہ نصب العین کے حصول کے لیے قید و بند کی صعوبتیں بھی عزم و حوصلے سے برداشت کیں اور اب ایک طویل عرصے سے نظر بندی کی آزمائش سے بھی گزر رہے ہیں۔ 1962ء میں پہلی گرفتاری کے بعد وہ 1993ء تک وقفے وقفے سے رہا اور گرفتار ہوتے رہے، اس طرح انہوں نے کم و بیش سترہ سال کا عرصہ قید میں گزارا ہے۔ جہاں تک گھر میں نظر بندی کا تعلق ہے تو اس کی مدت بھی محض سات سال نہیں بہت زیادہ ہے۔ ریاست کی کٹھ پتلی حکومت اور دہلی سرکار کی یہ پوری کوشش رہی ہے کہ انہیں کشمیری عوام کے ساتھ گھلنے ملنے نہ دیا جائے، انہیں گرفتار نہیں کیا جاسکتا تو گھر میں ضرور نظر بند رکھا جائے، یہی وجہ ہے کہ گیلانی صاحب جیل سے رہائی کے بعد پولیس، فوج اور خفیہ ایجنسیوں کی نگرانی میں ہیں اور گھر ان کے لیے سب جیل بن کر رہ گیا ہے۔ ایک کشمیری دانشور کہتے ہیں کہ بھارت نے ریاست پر قبضہ کرکے اسے نظر بندی کیمپ اور فوجی چھاؤنی میں تبدیل کردیا ہے، لوگ بظاہر شہروں میں چلتے پھرتے نظر آتے ہیں لیکن عملاً بھارتی فوج نے انہیں نظر بند کر رکھا ہے اور وہ چھوٹی جیل میں نہیں بڑی جیل میں قیدی بنے ہوئے ہیں۔ سید علی گیلانی بھارت کے نزدیک زیادہ خطرناک ہیں اس لیے انہیں گھر میں محبوس کردیا گیا ہے۔
بھارتی سید علی گیلانی کو شدت پسند قرار دیتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ابتدا ہی سے پُرامن سیاسی جدوجہد کے قائل رہے ہیں، انہوں نے ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں بھی کئی بار حصہ لیا اور کامیابی حاصل کی۔ وہ 1987ء سے 1989ء تک اسمبلی میں متحدہ حزب اختلاف کے پارلیمانی قائد رہے لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ اسمبلی عوامی جذبات کی ترجمانی کرنے سے قاصر ہے اور بھارتی فوج کے مظالم میں شدت سے اضافہ ہورہا ہے تو وہ اپنے ساتھیوں سمیت اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہو کر عوام میں آگئے اور ’’تحریک حریت کشمیر‘‘ کی بنیاد رکھی جس میں مقبوضہ علاقے کی تمام سیاسی جماعتیں شامل ہیں اور بھارت کی غلامی سے نجات کے لیے پُرامن سیاسی جدوجہد کررہی ہیں جہاں تک کشمیری نوجوانوں کی مسلح جدوجہد کا تعلق ہے تو بھارت نے اپنے وحشیانہ مظالم کے ذریعے خود اِن نوجوانوں کو ہتھیار اُٹھانے پر مجبور کیا ہے۔ سید علی گیلانی اور ان کے رفقا نوجوانوں کی قربانی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، انہیں یقین ہے کہ یہ خون کبھی رائیگاں نہیں جائے گا اور کشمیر کے اُفق پر آزادی کا سورج ضرور طلوع ہوگا۔