تاریخِ حج

389

مولانا سیدداؤد غزنوی
چار ہزار برس پہلے جب حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام عراق کی سر زمین میں پیدا ہوئے، جہاں کلدانیوں کی حکومت تھی۔ اس زمانے میں اگرچہ یہ دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ قوم تھی، لیکن انہیں اتنی بھی بصیرت اور سوجھ بوجھ نہ تھی کہ سورج، چاند، ستارے اور مخلوق زوال پذیر ہیں، یہ کبھی بھی معبود اور حاجت روا یا مشکل کشا نہیں ہو سکتے، یہ لوگ ستاروں اور بتوں کی پوجا کرتے، ان میں نجوم فال، رمل، جادو، ٹونے وغیرہ کا خوب چرچا تھا، ہندوؤں میں جس طرح پنڈت اور برہمن ہیں۔ اس زمانے میں بھی پجاریوں کا ایک گروہ تھا، جو قسم قسم کے ڈھونگ رچاتا، عوام ان کے پھندے میں بری طرح پھنسے ہوئے تھے، انہی پجاریوں کو وہ اپنی قسمت کا مالک سمجھتے تھے اور انہیں کی نیاز مندیوں میں اپنی دولت اور ساری عمر صرف کر دیتے تھے۔ ادنیٰ کسان سے لے کر بادشاہ تک سب ہی ان کے پھندے میں پھنسے ہوئے تھے، کیونکہ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ دیوتاؤں کی خوشنودی حاصل ہو۔ اور ان کو خوش رکھنا چاہیے۔ یہ چاہیں تو ہم پر دیوتاؤں کی عنایت ہوگی۔ ورنہ ہم طرح طرح کے مصائب میں مبتلا ہو جائیں گے۔
مگر ابراہیمؑ کون ابراہیمؑ ! جسے اللہ نے فرمایا کہ اپنے رب کے حضور قلب سلیم لے کر حاضر ہوا۔ وہ ابراہیمؑ جس کی بے مثل وفا شعاریوں پر فرمایا کہ جب اس نے ہوش سنبھالتے ہی غور و فکر کیا کہ یہ سورج، چاند اور ستارے ایک مقررہ پروگرام پتھر کے بت کو جن کو انسان اپنے ہاتھ سے بناتا ہے اور یہ بادشاہ جو ہم جیسے انسان ہیں خدا کیسے ہو سکتے ہیں؟ جب میرا خالق اللہ ہے، وہی مجھے کھلاتا پلاتا ہے اور جب بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھے شفا بخشتا ہے اور اسی کے ہاتھ میری زندگی اور موت ہے اور وہی میرے نفع و نقصان کا مالک ہے، یہ سوچنے کے بعد حضرت ابراہیم خلیل اللہ نے قطعی فیصلہ کر لیا کہ جن معبودوں کو میری قوم پوجتی ہے ان کو میں ہرگز نہ پوجوں گا اور اس فیصلے کے بعد انہوں نے اپنی قوم سے علی الاعلان کہہ دیا کہ جن معبودوں کو تم خدا کی خدائی میں شریک ٹھہراتے ہو، میں ان سے کامل بیزاری کا اعلان کرتا ہوں:
’’میں نے سب درگاہوں سے منہ موڑ کر اس ذات پاک کی نیاز مندیوں اور عبادت گزاریوں کے لیے مخصوص کر دیا ہے، جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اور اب میرا مشرک قوم سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ (انعام 79)
اس اعلان کے بعد حضرت ابراہیم خلیل اللہ پر مصائب کا ہجوم ٹوٹ پڑا۔ باپ نے کہا: اگر تو اپنے عقیدے سے باز نہیں آتا ہے، تو میرے گھر سے نکل جا، ورنہ میں تجھے سنگسار کر دوں گا۔ قوم نے کہا کہ ابراہیم کو قتل کر دینا چاہیے یا آگ کی چتا میں ڈال کر اْسے بھسم کر دینا چاہیے۔ بادشاہ کے سامنے مقدمہ پیش ہوا تو اس نے فیصلہ کیا کہ ابراہیم کو زندہ آگ میں جلا دیا جائے۔ مگر اللہ پر کامل یقین رکھنے والا ابراہیمؑ اس سزا کو بھگتنے کے لیے تیار ہوگیا۔
جب اللہ نے اپنی قدرت سے اس کو آگ میں جلنے سے بچا لیا، تو وہ اپنے گھر بار، عزیز و اقارب قوم اور وطن سب کو چھوڑ چھاڑ کر یہ کہہ کر ہجرت کی راہ اختیار کی:
’’میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرتا ہوں، وہ سب پر غالب ہے اور اس کے سارے کام حکمت پر مبنی ہیں۔ (العنکبوت: 62) وطن چھوڑنے کے بعد حضرت ابراہیمؑ شام، فلسطین، مصر اور عرب کے ملکوں میں پھرتے رہے۔ آخر عمر میں جب کہ اولاد سے مایوسی ہو چکی تھی، اللہ نے اولاد دی۔ جب اولاد ملی تو اللہ کے اس وفادار بندے کو یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ جس مشن کو پھیلانے میں خود اس نے اپنی ساری عمر صرف کر دی کس طرح اولاد کو اپنے بعد اپنے مشن کو جاری رکھنے کے لیے تیار کروں۔
امامت کبریٰ کی تاجپوشی: اس اطاعت گزاری، وفاشعاری، فدائیت اور قربانیوں کے بعد ایک اور مگر آخری قربانی یا آزمائش باقی رہ گئی تھی اور وہ امتحان یہ تھا کہ اس بڑھاپے میں جبکہ پوری مایوسی کے بعد اسے اولاد نصیب ہوتی ہے، اپنے اکلوتے بیٹے اسماعیل کو اپنے معبود برحق کے لیے قربان کر سکتا ہے؟ چنانچہ یہ امتحان بھی لے لیا گیا، جب اس امتحان وآزمائش میں بھی حضرت ابراہیمؑ پورے اترے تب انہیں امام بنانے کا فیصلہ صادر فرمایا کہ ہاں اب تم اس کے اہل ہو کر تمہیں بنی نوع انسان کا امام بنایا جائے۔
عالمگیر تحریک اسلام کا مرکز: جب حضرت ابراہیمؑ کو دنیا کی امامت سونپ دی گئی اور وہ اسلام کی عالمگیر تحریک کے امام بنا دیے گئے، تو آپ نے اپنے بڑے صاحبزادے حضرت اسماعیلؑ کو حجاز میں مکے کے مقام پر رکھا، اسی مقام پر باپ بیٹا دونوں نے دعوت اسلام کے لیے وہ مرکز تعمیر کیا جو کعبہ کے نام سے آج ساری دنیا میں مشہور ہے۔ یہ عمارت عام مساجد کی طرح صرف عبادت گاہ نہ تھی بلکہ اول روز سے ہی اس کو دین اسلام کی عالمگیر تحریک کا مرکز قرار دیا گیا تھا، تاکہ ایک اللہ کی عبادت کرنے والے ہر جگہ سے کھینچ کھینچ کر یہاں جمع ہوا کریں، جمع ہو کر اللہ کی عبادت کریں اور اسلام کا پیغام لے کر پھر اپنے اپنے ملکوں کو واپس جائیں، یہی اجتماع تھا جس کا نام ’’حج‘‘ رکھا گیا۔