حجاجِ کرام کی بعض غلطیاں

329

محمد نجیب قاسمی سنبھلی
حج اور عمرے کے لیے صرف پاکیزہ حلال کمائی میں سے خرچ کرنا چاہیے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اللہ تعالیٰ پاکیزہ ہے اور پاکیزہ چیزوں کو ہی قبول کرتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب آدمی حج کے لیے رزق حلال لے کر نکلتا ہے اور اپنا پاؤں سواری کے رکاب میں رکھ کر (یعنی سواری پر سوار ہوکر) لبیک کہتا ہے تو اس کو آسمان سے پکارنے والے جواب دیتے ہیں، تیری لبیک قبول ہو اور رحمت الہی تجھ پر نازل ہو، تیرا سفر خرچ حلال اور تیری سواری حلال اور تیرا حج مقبول ہے اور تو گناہوں سے پاک ہے۔ اور جب آدمی حرام کمائی کے ساتھ حج کے لیے نکلتا ہے اور سواری کے رکاب پر پاؤں رکھ کر لبیک کہتا ہے تو آسمان کے منادی جواب دیتے ہیں تیری لبیک قبول نہیں، نہ تجھ پر اللہ کی رحمت ہو، تیرا سفر خرچ حرام، تیری کمائی حرام اور تیرا حج غیر مقبو ل ہے۔ (طبرانی)
ہمیشہ ہمیں حلال رزق پر ہی اکتفا کرنا چاہیے خواہ بظاہر کم ہی کیوں نہ ہو۔ حرام رزق کے تمام وسائل سے ہمیشہ بچنا چاہیے۔ جیساکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حرام مال سے جسم کی بڑھوتری نہ کرو کیونکہ اس سے بہتر آگ ہے۔ (ترمذی)
بعض لوگوں نے مشہور کر رکھا ہے کہ اگر کسی نے عمرہ کیا تو اس پر حج فرض ہوگیا، یہ غلط ہے۔ اگر وہ صاحب استطاعت نہیں ہے یعنی اگر اس کے پاس اتنا مال نہیں ہے کہ وہ حج ادا کرسکے تو اس پر عمرے کی ادائیگی کی وجہ سے حج فرض نہیں ہوتا ہے اگرچہ وہ عمرہ حج کے مہینوں میں ادا کیا جائے پھر بھی عمرے کی ادائیگی کی وجہ سے حج فرض نہیں ہوگا۔
یاد رکھیں کہ اگر غفلت کی وجہ سے ایک وقت کی نماز بھی فوت ہوگئی تو مسجد حرام کی سو نفلوں سے بھی اس کی تلافی نہیں ہوسکتی ہے۔ نیز جو لوگ نماز کا اہتمام نہیں کرتے وہ حج کی برکات سے محروم رہتے ہیں اور ان کا حج مقبول نہیں ہوتا ہے۔
حج کے اس عظیم سفر کے دوران لڑنا، جھگڑنا حتی کہ کسی پر غصہ ہونا بھی غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: حج کے چند مہینے مقرر ہیں اس لیے جو شخص ان میں حج کو لازم کرلے وہ اپنی بیوی سے میل میلاپ کرنے، گناہ کرنے اور لڑائی جھگڑا کرنے سے بچتا رہے۔ (البقرہ 197) نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے حج کیا اور شہوانی باتوں اور فسق وفجور سے بچا، وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتا ہے جیسے اس دن پاک تھا جب اسے اس کی ماں نے جنا تھا۔ (بخاری ومسلم)
بڑی غلطیوں میں سے ایک بغیر احرام کے میقات سے آگے بڑھ جانا ہے۔ لہذا ہوائی جہاز پر سوار ہونے والے حضرات ایرپورٹ پر ہی احرام باندھ لیں یا احرام لے کر ہوائی جہاز میں سوار ہوجائیں اور میقات سے پہلے پہلے باندھ لیں۔
بعض حضرات شروع ہی سے اضطباع (یعنی داہنی بغل کے نیچے سے احرام کی چادر نکال کر بائیں کندھے پر ڈالنا) کرتے ہیں، یہ غلط ہے بلکہ صرف طواف کے دوران اضطباع کرنا سنت ہے۔ لہذا دونوں بازؤں ڈھانک کر ہی نماز پڑھیں۔
بعض حجاج کرام حجر اسود کا بوسہ لینے کے لیے دیگر حضرات کو تکلیف دیتے ہیں حالانکہ بوسہ لینا صرف سنت ہے جبکہ دوسروں کو تکلیف پہونچانا حرام ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو خاص طور سے تاکید فرمائی تھی کہ دیکھو تم قوی آدمی ہو حجر اسود کے استلام کے وقت لوگوں سے مزاحمت نہ کرنا، اگر جگہ ہو تو بوسہ لینا ورنہ صرف استقبال کرکے تکبیر وتہلیل کہہ لینا۔
حجر اسود کا استلام کرنے کے علاوہ طواف کرتے ہوئے خانہ کعبہ کی طرف چہرا یا پشت کرنا غلط ہے، لہذا طواف کے وقت آپ کا چہرہ سامنے ہو اور کعبہ آپ کے بائیں جانب ہو۔ اگر طواف کے دوران آپ کا چہرا کعبہ کی طرف ہوجائے تو اس پر دم لازم نہیں ہوگا، لیکن قصداً ایسانہ کریں۔
بعض حضرات حجر اسود کے علاوہ خانہ کعبہ کے دیگر حصہ کا بھی بوسہ لیتے ہیں اور چھوتے ہیں جو غلط ہے، بلکہ بوسہ صرف حجر اسود یا خانہ کعبہ کے دروازے کا لیا جاتا ہے۔ رکن یمانی اور حجر اسود کے علاوہ کعبہ کے کسی حصے کو بھی طواف کے دوران نہ چھوئیں، البتہ طواف اور نماز سے فراغت کے بعد ملتزم پر جاکر اس سے چمٹ کر دعائیں مانگنا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔
رکن یمانی کا بوسہ لینا یا دور سے اس کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرنا غلط ہے، بلکہ طواف کے دوران اس کو صرف ہاتھ لگانے کا حکم ہے وہ بھی اگر سہولت سے کسی کو تکلیف دیے بغیر ممکن ہو۔
بعض حضرات مقام ابراہیم کا استلام کرتے ہیں اور اس کا بوسہ لیتے ہیں، علامہ نوویؒ نے ایضاح اور ابن حجر مکیؒ نے توضیح میں فرمایا ہے کہ مقام ابراہیم کا نہ استلام کیا جائے اور نہ اس کا بوسہ لیا جائے، یہ مکروہ ہے۔
بعض حضرات طواف کے دوران حجر اسود کے سامنے دیر تک کھڑے رہتے ہیں، ایسا کرنا غلط ہے کیونکہ اس سے طواف کرنے والوں کو پریشانی ہوتی ہے، صرف تھوڑا رک کر اشارہ کریں اور بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر آگے بڑھ جائیں۔