جونیجو پاکستان کی تاریخ کے ایک شریف النفس کر دار تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے انہیں سب سے بے ضرر جان کر غیر جماعتی اسمبلی کا قائد ایوان بنایا تھا مگر ان کا المیہ بھی یہ ہوا کہ وہ اپنی طاقت کا غلط اندازہ لگا بیٹھے۔ جنرل ضیاء نے انہیں اپنا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے منتخب کیا تھا مگر عالمی اسٹیبلشمنٹ نے انہیں جنرل ضیاء الحق کے خیمے میں اونٹ بننے کی ہلہ شیری دی۔ یہ وہ لمحات تھے جب افغان جہاد اختتام کی طرف بڑھ رہا تھا اور سرد جنگ کا ماحول بھی ختم ہونے جا رہا ہے۔ بدلتی ہوئی اس فضاء میں جنرل ضیاء بھی اثاثے سے بوجھ بن رہے تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے جونیجو حکومت برطرف کردی تو پنجاب اور سرحد کے طاقتور وزرائے اعلیٰ میاں نوازشریف اور جنرل فضل حق ان کا اعلانیہ ساتھ چھوڑ کر جنرل ضیاء الحق کے ساتھ کھڑے ہوئے۔ آزادکشمیر کے صدر سردار عبدالقیوم خان جو چند ماہ پہلے تک جونیجو مرحوم کے اعزاز میں جلسے منعقد کر رہے تھے کا یہ تبصرہ تو بہت دلخراش تھا کہ جونیجو کو سیاست چھوڑ کر اب سندھڑی میں آم بیچنے چاہیے۔ اس لیے جونیجو اور آج کے نوازشریف کا کیا موازنہ؟ جونیجو کس بل بوتے پر جی ٹی روڈ پر نکلتے جب کہ نوازشریف تو صرف جسمانی طور پر اقتدار سے باہر ہوئے ہیں باقی پورا سسٹم انہی کو اصلی وزیر اعظم قرار دے رہا ہے۔ عوامی تحریک کے سربراہ علامہ طاہر القادری بھی لاہور پہنچ گئے ہیں اور انہوں نے لاہور میں ایک دھواں دھار خطاب کیا۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی ایک جلسے کا اعلان کر رکھا ہے۔ آزاد سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق ملک میں محاذ آرائی اگر ایک حد سے بڑھ گئی تو اس سے جمہوریت ہی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ جمہوریت کی بساط لپٹ جانے کے بعد سب خالی ہاتھ رہ جائیں گے۔ ایسا ہونا کسی المیے سے کم نہیں ہوگا۔ ملک کی سیاسی قیادت کو حالات کو اس نہج تک نہیں لانا چاہیے کہ سب کو ایک ہی کنٹینر پر بیٹھنا پڑے اور میڈیا ان کے ایک دوسرے کے بارے میں پرانے خیالات کی وڈیوز چلا کر انہیں شرمسار کرتا رہے۔ چند دن پہلے میاں محمدنوازشریف نے سوال پوچھا تھا کہ کوئی ایسی عدالت ہے جو آئین پامال کرنے والے ڈکٹیٹر کو سزا دے۔ قوم دیکھنا چاہتی ہے کہ آمروں کو کب سزا ملے گی۔ اگر کسی آمر کو سزا نہیں مل سکتی تو نظریہ کیا ہے؟ سابق وزیر اعظم کا یہ سوال بڑی حد تک جائز ہے مگر اس سوال کے پیچھے ایک کھینچا تانی، رسہ کشی اور پھر حتمی فتح کی ایک پوری کہانی ہوتی ہے۔ ایک ڈکٹیٹر راتوں رات ٹی وی پر نمودار ہو کر ’’عزیز ہم وطنو السلام علیکم‘‘ نہیں کہتا۔ ہر ڈکٹیٹر کے ظہور کے پیچھے ایک پوری کہانی اور اس کی آمد میں واقعات اور حادثات کے ایک تسلسل کا عمل دخل ہوتا ہے۔ یہ کھیل اس وقت شروع ہوتا ہے جب سیاسی حکمران اپنی طاقت، صلاحیت اور پاکستان کی زمینی حقائق کو فراموش کر دیتے ہیں جس سے طاقت کی ایک کشمکش اُبھرتی ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں جب ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے غیر جماعتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا تو امیر جماعت اسلامی میاں طفیل محمد اکثر کہا کرتے تھے کہ فوج کی مثال ایک بندوق بردار کی ہے اور عوام نہتے ہیں۔
بقیہ صفحہ9نمبر1
حکومت کا لانگ مارچ
نہتے عوام طاقت سے فوج کو بیرکوں میں واپس نہیں بھیج سکتے اس کے لیے افہام وتفہیم اور مذاکرات سے بہتر کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ یہ اصول آج بھی پاکستان کی سیاست میں قائم ہے۔ فوج اور سویلین قیادت جب تک ایک پیج پر آکر ملک کے معاملات کو حل نہیں کرتی پاکستان کا سیاسی نظام حادثات کا شکار ہوتا رہے گا۔ پاکستان میں ایک بار قانون کی حکمرانی قائم ہوجائے تو پھر کسی کو یہ سوال کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہو گی جو میاں نوازشریف نے پوچھا ہے۔ فوج اور سیاست دانوں کو مل جل کر ایسے اقدمات کرنے چاہئیں کہ آئین کی پامالی کی نوبت ہی نہ آئے۔ حالات کو اس نہج تک ہر گز نہیں پہنچنا چاہیے۔ قانون کی عمل داری ایک بار قائم ہوجائے تو پھر سویلین اور فوجی، جمہوری حکمران اور آمر سب قانون کی نظر میں یکساں ہوں گے۔ ابھی طبقاتی اور ادارہ جاتی کشمکش جا ری ہے اسی لیے سب اپنے اپنے طبقات کو قانون کی زد سے بچانے کی کوشش کر گزرتے ہیں جو بہر حال ایک غیر اصولی بات ہے۔