حکومت کا لانگ مارچ

269

zc_ArifBeharمیاں نواز شریف ایک مارچ کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد سے لاہور کی طرف چل پڑے ہیں۔ ان کے قافلے میں پنجاب، آزادکشمیر اور خیبر پختون خوا سمیت دور دراز علاقوں سے لوگ شامل ہیں۔ وفاقی حکومت، پنجاب، آزادکشمیر اور گلگت بلتستان اور بلوچستان کی حکومتیں بھی اس مارچ میں اپنا حصہ ڈال رہی ہیں جن صوبوں میں مسلم لیگ ن کی حکومتیں نہیں وہاں بھی گورنر ہاؤسز پر مسلم لیگ ن کا جھنڈا لہرا رہا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا انوکھا لانگ مارچ جس میں ایک سابق وزیر اعظم جنہیں بار بار اصلی وزیر اعظم کہا جارہا ہے، ایک موجودہ وزیر اعظم، وفاقی وزراء، صوبائی وزرائے اعلیٰ، بلدیاتی اداروں کے نمائندے سرکاری وسائل اور لاؤ لشکر کے ساتھ شریک ہیں۔ عمومی طور پر لانگ مارچ اپوزیشن اپنے مطالبات منوانے کی خاطر منعقد کرتی ہے مگر حکومت لانگ مارچ کس کے خلاف کر رہی ہے؟ یہ ایک جائز سوال ہے۔ بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ ریاست کا ایک ادارہ یعنی انتظامیہ کچھ ریاست کے دوسرے اداروں کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے پر بضد اور مُصر ہے۔ اس طرح یہ چیرمین ماؤ کا لانگ مارچ بھی نہیں بلکہ پاکستان اور خود میاں نوازشریف کے ماضی میں کیے جانے والے لانگ مارچوں سے قطعی مختلف ہے۔ یہ سب لانگ مارچ بے وسیلہ اپوزیشن عوامی حمایت سے کرتی رہی ہے مگر یہاں تو باوسیلہ حکومت کیل کانٹے سے لیس ہو کر مارچ کررہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ میاں نوازشریف کو کنٹینر پر چڑھانے کا سہرا کچھ اخبار نویسوں کے سر ہے جن کا کہنا تھا کہ نوازشریف محمد خان جونیجو بن کر خاموشی سے گھر کی راہ نہ لیں بلکہ دھوم دھڑکے کے ساتھ گھر کو چل پڑیں۔
جونیجو پاکستان کی تاریخ کے ایک شریف النفس کر دار تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے انہیں سب سے بے ضرر جان کر غیر جماعتی اسمبلی کا قائد ایوان بنایا تھا مگر ان کا المیہ بھی یہ ہوا کہ وہ اپنی طاقت کا غلط اندازہ لگا بیٹھے۔ جنرل ضیاء نے انہیں اپنا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے منتخب کیا تھا مگر عالمی اسٹیبلشمنٹ نے انہیں جنرل ضیاء الحق کے خیمے میں اونٹ بننے کی ہلہ شیری دی۔ یہ وہ لمحات تھے جب افغان جہاد اختتام کی طرف بڑھ رہا تھا اور سرد جنگ کا ماحول بھی ختم ہونے جا رہا ہے۔ بدلتی ہوئی اس فضاء میں جنرل ضیاء بھی اثاثے سے بوجھ بن رہے تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے جونیجو حکومت برطرف کردی تو پنجاب اور سرحد کے طاقتور وزرائے اعلیٰ میاں نوازشریف اور جنرل فضل حق ان کا اعلانیہ ساتھ چھوڑ کر جنرل ضیاء الحق کے ساتھ کھڑے ہوئے۔ آزادکشمیر کے صدر سردار عبدالقیوم خان جو چند ماہ پہلے تک جونیجو مرحوم کے اعزاز میں جلسے منعقد کر رہے تھے کا یہ تبصرہ تو بہت دلخراش تھا کہ جونیجو کو سیاست چھوڑ کر اب سندھڑی میں آم بیچنے چاہیے۔ اس لیے جونیجو اور آج کے نوازشریف کا کیا موازنہ؟ جونیجو کس بل بوتے پر جی ٹی روڈ پر نکلتے جب کہ نوازشریف تو صرف جسمانی طور پر اقتدار سے باہر ہوئے ہیں باقی پورا سسٹم انہی کو اصلی وزیر اعظم قرار دے رہا ہے۔ عوامی تحریک کے سربراہ علامہ طاہر القادری بھی لاہور پہنچ گئے ہیں اور انہوں نے لاہور میں ایک دھواں دھار خطاب کیا۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی ایک جلسے کا اعلان کر رکھا ہے۔ آزاد سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق ملک میں محاذ آرائی اگر ایک حد سے بڑھ گئی تو اس سے جمہوریت ہی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ جمہوریت کی بساط لپٹ جانے کے بعد سب خالی ہاتھ رہ جائیں گے۔ ایسا ہونا کسی المیے سے کم نہیں ہوگا۔ ملک کی سیاسی قیادت کو حالات کو اس نہج تک نہیں لانا چاہیے کہ سب کو ایک ہی کنٹینر پر بیٹھنا پڑے اور میڈیا ان کے ایک دوسرے کے بارے میں پرانے خیالات کی وڈیوز چلا کر انہیں شرمسار کرتا رہے۔ چند دن پہلے میاں محمدنوازشریف نے سوال پوچھا تھا کہ کوئی ایسی عدالت ہے جو آئین پامال کرنے والے ڈکٹیٹر کو سزا دے۔ قوم دیکھنا چاہتی ہے کہ آمروں کو کب سزا ملے گی۔ اگر کسی آمر کو سزا نہیں مل سکتی تو نظریہ کیا ہے؟ سابق وزیر اعظم کا یہ سوال بڑی حد تک جائز ہے مگر اس سوال کے پیچھے ایک کھینچا تانی، رسہ کشی اور پھر حتمی فتح کی ایک پوری کہانی ہوتی ہے۔ ایک ڈکٹیٹر راتوں رات ٹی وی پر نمودار ہو کر ’’عزیز ہم وطنو السلام علیکم‘‘ نہیں کہتا۔ ہر ڈکٹیٹر کے ظہور کے پیچھے ایک پوری کہانی اور اس کی آمد میں واقعات اور حادثات کے ایک تسلسل کا عمل دخل ہوتا ہے۔ یہ کھیل اس وقت شروع ہوتا ہے جب سیاسی حکمران اپنی طاقت، صلاحیت اور پاکستان کی زمینی حقائق کو فراموش کر دیتے ہیں جس سے طاقت کی ایک کشمکش اُبھرتی ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں جب ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے غیر جماعتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا تو امیر جماعت اسلامی میاں طفیل محمد اکثر کہا کرتے تھے کہ فوج کی مثال ایک بندوق بردار کی ہے اور عوام نہتے ہیں۔
بقیہ صفحہ9نمبر1
حکومت کا لانگ مارچ
نہتے عوام طاقت سے فوج کو بیرکوں میں واپس نہیں بھیج سکتے اس کے لیے افہام وتفہیم اور مذاکرات سے بہتر کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ یہ اصول آج بھی پاکستان کی سیاست میں قائم ہے۔ فوج اور سویلین قیادت جب تک ایک پیج پر آکر ملک کے معاملات کو حل نہیں کرتی پاکستان کا سیاسی نظام حادثات کا شکار ہوتا رہے گا۔ پاکستان میں ایک بار قانون کی حکمرانی قائم ہوجائے تو پھر کسی کو یہ سوال کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہو گی جو میاں نوازشریف نے پوچھا ہے۔ فوج اور سیاست دانوں کو مل جل کر ایسے اقدمات کرنے چاہئیں کہ آئین کی پامالی کی نوبت ہی نہ آئے۔ حالات کو اس نہج تک ہر گز نہیں پہنچنا چاہیے۔ قانون کی عمل داری ایک بار قائم ہوجائے تو پھر سویلین اور فوجی، جمہوری حکمران اور آمر سب قانون کی نظر میں یکساں ہوں گے۔ ابھی طبقاتی اور ادارہ جاتی کشمکش جا ری ہے اسی لیے سب اپنے اپنے طبقات کو قانون کی زد سے بچانے کی کوشش کر گزرتے ہیں جو بہر حال ایک غیر اصولی بات ہے۔