پاکستانی مدرٹریساڈاکٹر روتھ فاؤ88 سال کی عمر میں چل بسیں

256

آخری رسومات19اگست کو ادا کی جائیں گی‘پاکستان میں جذام کیخلاف قائدانہ کردار ادا کیا
صدر‘وزیر اعظم ‘ آرمی چیف ‘ وزیر اعلیٰ و دیگر کا اظہار افسوس‘ حب الوطنی اور خدمات پر خراج تحسین
کراچی (اسٹاف رپورٹر+خبر ایجنسیاں) پاکستانی مدر ٹریسا اور جذام کے مریضوں کے لیے کام کرنے والی ڈاکٹر روتھ فاؤ کراچی کے نجی اسپتال میں شدید علالت کے بعد88 سال کی عمر میں چل بسیں، ڈاکٹر روتھ فاؤ کی آخری رسومات19 اگست کو سینٹ پیٹرکس چرچ صدر میں ادا کی جائیں گی۔صدرمملکت ممنون حسین،وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی ، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمرجاوید باجوہ ، وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ و دیگر اعلیٰ شخصیات نے ڈاکٹر روتھ فاؤ کے انتقال پر اظہار افسوس اور ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ میری ایڈیلیڈ سوسائٹی آف پاکستان کی سربراہ اور ملک میں جذام کے مرض کے خاتمے کے لیے جدوجہد کرنے والی جرمن خاتون ڈاکٹر روتھ فاؤ کی گزشتہ کئی ماہ سے طبیعت ناساز تھی، وہ 2 ہفتے سے نجی اسپتال میں زیر علاج تھیں۔ سی ای او میری ایڈیلیڈ سینٹر ڈاکٹر مارون لوبو نے بتایا کہ ڈاکٹر روتھ فاؤ کا انتقال رات ساڑھے12 بجے ہوا، ان کی آخری رسومات19 اگست کو سینٹ پیٹرکس چرچ صدر میں ادا کی جائیں گی۔ ڈاکٹر روتھ فاؤ 1960ء کی دہائی میں جرمنی سے پاکستان آئیں جہاں انہوں نے معاشرے میں اچھوت سمجھے جانے والے جذام کے مریضوں کی مسیحائی کی اور ایسے مریضوں کے بارے میں مثبت تشخیص اجاگر کرنے میں قائدانہ کردار ادا کیا۔ انہوں نے کراچی کے آئی آئی چند ریگر روڈ پر کوڑھیوں کی بستی میں چھوٹے سے فری کلینک سے اپنی خدمات کا آغاز کیا ۔ میری ایڈیلیڈ لپریسی سینٹر کے نام سے قائم ہونے والا یہ شفاخانہ جذام کے مریضوں کا علاج کرتا تھا، مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظرانہوں نے ملک بھر کے کئی اسپتالوں میں لپریسی ٹریٹمنٹ سینٹرقائم کیے۔ ان کی بے لوث کاوشوں کے باعث پاکستان سے اس موذی مرض کا خاتمہ ممکن ہوا اور اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے1996ء میں پاکستان کو ایشیا کے ان اولین ممالک میں شامل کیا جہاں جذام کے مرض پر کامیابی کے ساتھ قابو پایا گیا۔ حکومت نے 1988ء میں ان کو پاکستان کی شہریت دے دی، ڈاکٹر روتھ فاؤ کی گراں قدر خدمات پر حکومت پاکستان، جرمنی اور متعدد عالمی اداروں نے انہیں اعزازات سے نوازا جن میں نشان قائد اعظم، ہلال پاکستان، ہلال امتیاز، جرمنی کا آرڈر آف میرٹ اور متعدد دیگر اعزازات شامل ہیں۔ آغا خان یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹر آف سائنس کا ایوارڈ بھی دیا، ڈاکٹر روتھ فاؤ جرمنی اور پاکستان دونوں کی شہریت رکھتی تھیں اور گزشتہ56 برس سے پاکستانیوں کی خدمت میں مصروف عمل تھیں، انہیں پاکستان کی مدر ٹریسا بھی کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹر روتھ کیتھرینا مارتھا فاؤ ویسے تو جرمنی میں پیدا ہوئیں لیکن اپنی جوانی پاکستان کی خدمت میں وقف کردی،60 کی دہائی میں پاکستان میں جذام کے ہزاروں مریض تھے، اس وقت سہولتیں اور علم کی کمی کی وجہ سے جذام یا کوڑھ کو لاعلاج اور مریض کو اچھوت سمجھا جاتا تھا۔