حکومت سندھ قومی احتساب بیورو (نیب) سے جان چھڑانے میں کامیاب ہوگئی اور اب نیب کو صوبے میں کرپشن اور بد عنوان عناصر کے خلاف کارروائی کا اختیار نہیں رہا۔ اس سے فوری طور پر سندھ کے کئی وزرا اور نامور شخصیات کو فائدہ پہنچے گا جن کے مقدمات نیب کے پاس تھے۔ گو کہ گورنر سندھ نے نئے قانون احتساب پر دستخط نہیں کیے لیکن گورنر کی طرف سے دو بار مسترد کیے جانے کے بعد بل منظور کرلیا جاتا ہے۔ گویا آئین میں گورنر اور صدر مملکت کی حیثیت محض درشنی ہے اور ان کا اختیار صرف اتنا ہے کہ کسی بل کو دو بار واپس کرسکتے ہیں۔ جمہوریت کی ماں کہلانے والے برطانیہ میں ملکہ کی بھی یہی حیثیت ہے۔ اپوزیشن نے سندھ حکومت کے اقدامات کو چیلنج کرنے کا فیصلہ تو کیا ہے لیکن یہ محض وقت کا زیاں ہوگا۔ اکثریت کے بل پر سندھ اسمبلی سے منظور شدہ بل اب ایکٹ بن چکا ہے۔ صوبے میں احتساب آرڈیننس 1999ء کے خاتمے کے بعد سندھ کے سرکاری محکموں کے خلاف اب نیب کو کسی کارروائی کا اختیار نہیں رہا۔ چنانچہ صوبائی منتخب نمائندوں اور افسران کے خلاف کارروائی معطل ہوگئی۔ کرپشن کے حوالے سے نیب میں تحقیقات اور تفتیش کے مرحلے میں شامل 250سے زائد مقدمات کا ریکارڈ نیب حکام سے طلب کرلیاگیا ہے۔ 150 مقدمات اینٹی کرپشن کورٹس منتقل کیے جارہے ہیں۔ اس کا بڑا فائدہ سابق صوبائی وزیر شرجیل میمن کو بھی پہنچے گا۔ ان کے علاوہ سابق آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی، سیکرٹری بدر جمیل میندھرو سمیت کئی افراد کی جان بخشی ہوجائے گی۔ فیض پانے والوں میں آصف علی زرداری کے قریبی دوست بھی ہیں۔ نیب کا تمام ریکارڈ حکومت سندھ کو منتقل ہوجائے گا۔ حکومت سندھ کے سابق وزرا سمیت 6 منتخب نمائندوں کی جان بھی چھوٹ جائے گی۔ محکمہ تعلیم میں ہزاروں غیر قانونی بھرتیوں کے حوالے سے سابق صوبائی وزیر تعلیم پیر مظہر الحق بھی نیب کی زد میں تھے۔ صوبائی محکمہ اقلیتی امور میں غیر قانونی بھرتیوں کے معاملے سے سیکرٹری بدر جمیل میندھرو اس وقت کے مذکورہ محکمے کے ڈائرکٹر خادم چنڑ کے خلاف مقدمات بھی عدالت میں ہیں۔ یہ ایک طویل فہرست ہے۔ لیکن نیب کے اختیارات ختم ہونے کے بعد اب یہ مقدمات اینٹی کرپشن کورٹس کو منتقل ہوجائیں گے۔ وہاں کیا ہوگا، یہ بات محتاج وضاحت نہیں۔ ظاہر ہے کہ محکمہ انسداد بدعنوانی حکومت سندھ کے ماتحت ہی ہوگا۔ وزیراعلیٰ سندھ کہتے ہیں کہ تعلیم کے شعبے میں میرٹ پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا اور اساتذہ کی غیر قانونی بھرتیوں کی تحقیقات کی جائے گی۔ لیکن یہ کام کب ہوگا؟ محکمہ تعلیم میں غیر قانونی بھرتیوں کا مسئلہ تو کئی سال سے چل رہا ہے۔ کیا مراد علی شاہ پیر مظہر الحق کے خلاف شفاف تحقیقات کرواسکیں گے؟۔