گرو گول والکر نے یہ ظاہر کیا کہ جیسے انہوں نے یہ بات نہیں سنی، بلکہ وہ کہنے لگے کہ دنیا کی کوئی طاقت مسلمانوں کو ہندوستان میں رہنے نہیں دے سکتی، مسلمانوں کو اس دھرتی سے نکلنا ہوگا۔
میں نے کہا کہ روہتک کے جلسے کے چھ ہفتے بعد گاندھی جی کا قتل ہوگیا۔ کیا یہ محض اتفاق تھا۔ اس پر گرو گول والکر نے مسکراتے ہوئے کندھے اچکا دیے۔ کہنے لگے کہ مجھے گاندھی کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا لیکن کوئی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے ایک سال کے بعد مجھے رہا کرنا پڑا۔
اسلم شیخ نے پوچھا کیا یہ صحیح ہے کہ سردار پٹیل نے آپ کو اکتوبر 1947کو کشمیر بھیجا تھا تاکہ آپ مہاراجا ہری سنگھ سے مل کر اسے ہندوستان کے ساتھ الحاق کے اعلان پر آمادہ کریں۔ گرو گول والکر نے اعتراف کیا یہ صحیح ہے لیکن کہا کہ مہاراجا نے اس تجویز سے اتفاق تو کیا لیکن فوری طور پر الحاق کا اعلان نہیں کیا۔ کہنے لگے مہاراجا بہت ڈرپوک شخص تھا، شاید وہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت سے خوف زدہ تھا۔
میں نے پوچھا کہ آپ مسلمانوں، عیسائیوں اور کمیونسٹوں کے سخت خلاف ہیں، دوسری مذہبی اقلیتوں، سکھوں، پارسیوں اور یہودیوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ کہنے لگے کہ سکھ تو اسی دھرتی سے تعلق رکھتے ہیں اور ہندو دھرم کا مسلح بازو ہیں۔ پارسی اور یہودی ہمارے مہمان ہیں۔
اسلم شیخ نے پوچھا کہ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ آر ایس ایس بے حد خفیہ اور فوجی تنظیم ہے۔ گرو گول والکر نے کہا یہ بات صحیح نہیں۔ البتہ تنظیم میں اتنا سخت ڈسپلن ہے کہ اس کی وجہ سے لوگ اسے خفیہ فوجی تنظیم سمجھتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ اتنے سخت ڈسپلن کا کیا راز ہے اور آپ نے جب سر چالک کا عہدہ سنبھالا تو اس وقت آر ایس ایس کے ارکان ایک لاکھ سے بھی کم تھے لیکن اب کہا جاتا ہے یہ تعداد دس لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ کیا راز ہے اس کامیابی کا؟ گرو گول والکر نے زور دار قہقہے لگایا اور کہنے لگے کیا آپ پاکستان میں آر ایس ایس قائم کرنا چاہتے ہیں۔ قہقہہ کے بعد بھی دیر تک ان کا دبلا پتلا جسم سخت جنبش میں تھا، ایسے جیسے زلزلہ کے بعد کے جھٹکے۔
میں نے یہ جھٹکے روکنے کے لیے کہا کہ لوگ آپ پر نسل پرستی کا الزام لگاتے ہیں، کیا یہ صحیح ہے کہ آپ جرمنی سے یہودیوں کی تطہیر اور ان کے مکمل اخراج کے بارے میں ہٹلر کی پالیسی کی تعریف کرتے ہیں۔ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہندوستان کو ہٹلر سے سبق لینا چاہیے کہ کس طرح مختلف نسلوں اور ثقافتوں کے اختلاف اور تضاد کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ کہنے لگے کہ اس منحوس دن سے جب مسلمانوں نے اس دھرتی پر قدم رکھا تھا اب تک ہندوستان اس ملک کو تباہ کرنے والوں سے لڑر ہا ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا آپ سیکولر ہندوستان کے خلاف ہیں۔ گرو گول والکر نے کہا جی ہاں میں سیکولر مملکت کا سخت مخالف ہوں۔ ہندوستان کے غیر ہندووں کو ہندو دھرم، ہندو سنسکرتی زبان اختیار کرلینا چاہیے اور اس کے علاوہ سب کچھ ترک کردینا چاہیے۔
مسلمانوں اور پاکستان کے بارے میں گرو گول والکر کی باتوں سے لگ رہا تھا کہ وہ نسل پرستی اور مسلمانوں سے نفرت کی آگ میں جھلس رہے ہیں۔ وقت بھی بہت ہو گیا تھا۔ ہم نے مناسب سمجھا کہ ان سے اجازت لی جائے۔
اب جب بھی میں اس ملاقات کے بارے میں سوچتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ نریندر مودی اپنے گرو جی کے ہندو نسل پرست خیالات اور نظریات کے عین مطابق ہندوستان کو ڈھال رہے ہیں جس میں غیر ہندووں کا زندگی گزارنا محال ہو جائے گا۔