جوتے میڈیا کا مقدر ہیں

290

احمداعوان
چند روز قبل( ن) لیگ کی ریلی جس وقت اسلام آباد سے راولپنڈی کا سفر طے کر رہی تھی اس دوران چند ٹی وی چینلوں کے رپورٹروں اور کیمرہ مینوں کو ریلی میں شریک لوگوں نے تشدد کا نشانہ بنایا، عام فہم زبان میں یوں کہہ لیں کہ میڈیا کے چند غازیوں کو جوتے پڑے۔ یہ جوتے پڑتے ہی میڈیا کے نمائندوں کے دل میں شدید تکلیف اٹھی۔ اور ہر کسی نے اس نازک موقع پر اپنے تمام اختلافات بھلاکر متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے میدان میں کود پڑے جو کل تک متعلقہ چینلوں کے سب سے بڑے ناقدشمار کیے جاتے تھے۔ اس یکجہتی کی وجہ یہ ہے کہ ان چینلوں کے صحافیوں کو معلوم ہے کہ جوتے ہمارا بھی مقدر ہیں لہٰذا اگر ہم آج کے ساتھ کھڑے نہ ہوئے تو کل جب عوام ہماری خبر لیں گے تب ہمارے ساتھ بھی کوئی کھڑا نہیں ہوگا۔ اب ذرا احتجاج کرتے صحافیوں کے الفاظ پڑھیں۔ کسی کوکوئی حق نہیں پہنچتا ہے کہ وہ کسی میڈیا کے نمائندے پر تشدد کرے۔ یہ آزادی صحافت پر حملہ ہے۔ میڈیا نے بہت قربانیاں دی ہیں، میڈیا کا احترام سب پر فرض ہے۔ آپ کو خبر نہیں پسند تو چینل بدل لیں۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے لوگوں کو منع کریں ہم قربانیاں دیتے رہیں گے وغیرہ وغیرہ، بندہ پوچھے بھائی قربانیاں دیتے رہو گے تو روتے کیوں ہو؟ دونا قربانیاں ہر خیر کی ایک قیمت ہوتی ہے اگر تم میڈیا میں رہنے کو خیر سمجھتے ہو تو دو قربانی۔ چلّاتے، چیختے، بلبلاتے اور روتے کیوں ہو؟ کہ ظلم ہوگیا ظلم ہوگیا؟ اور یہ کس نے کہا کہ میڈیا کا احترام سب پر فرض ہے؟ کیا میڈیا خود سب کا احترام کرتا ہے؟ ایک چینل والے جس طرح عمران خان کا ذکر کرتے ہیں اسی طرح نوازشریف کا بھی کرتے ہیں؟ اور دوسرے چینل والے جس طرح نوازشریف کا ذکر کرتے ہیں اسی طرح عمران کی خبر کی تشہیر کرتے ہیں؟ ایک اور چینل والے جس طرح حکومتی جماعت کی تذلیل کرتے ہیں کیا اسی طرح حزب اختلاف کی کسی جماعت کی خبر کا پوسٹ مارٹم کرتے ہیں؟ تو جب میڈیا پر سب کی عزت کرنا فرض نہیں ہے تو میڈیا کی عزت کرنا سب پر کیسے فرض ہو گیا؟ اور میڈیا میں کس کی عزت محفوظ ہے؟ کون ہستی ہے جسے میڈیا نے چھوڑا ہے ؟ محمد علی جناح تک کا کارٹون بنا دیا ہے اور روز نشر کرتے ہیں ۔ اب آتے ہیں میڈیا کی قربانیوں کی طرف، کیا قربانی دی ہے میڈیا نے؟ 2001ء سے ابھی کل تک کراچی میں الطاف کی بدمعاشی کا سکہ چلتا تھا کسی میڈیا کی جرات تھی کہ وہ الطاف کی بدمعاشی پر بات تک کرتا؟حتیٰ کہ متحدہ مرکز 90 پر کئی چینلوں کے رپورٹروں کو ذلیل کیا گیا ان کو دھکے مارے گئے مگر کسی کی آواز بھی نہیں نکلتی تھی کیوں؟ کیوں کہ پتا تھا الطاف بوری میں ڈال دیتا ہے۔ تو کیا وہ ظلم نہیں تھا میڈیا کے ساتھ؟ مگر مجال ہے جو کسی چینل نے بے باک اور دلیرانہ صحافت کی اپنی روایت کو برقرار رکھا ہو؟ کہاں تھی اس وقت ان کی بے باکی اور دلیری؟ جمہوری جماعتوں کے جلسے میں دوہاتھ اور دو دھکے پڑے تو اتنے نازک ہوگئے کہ صحافی فوراً رونے لگے؟ یہ درد متحدہ مرکز 90 کے وقت میں تو کبھی یاد نہ آیا؟ وہ تو بھلا ہو الطاف کا کہ اس نے خود اپنی تباہی کا سامان کرلیا اور الطاف کے برے دن آگئے۔ لیکن اب بھی الطاف کسی کا موضوع کیوں نہیں ہوتا الطاف کے ظلم کم تھے؟ کوئی چینل تفصیل سے روشنی کیوں نہیں ڈالتا؟
سانحہ بلدیہ میں جل کر مرنے والوں کے گھروں کا پتا کسی چینل کے پاس نہیں ہے؟ کس چینل کو نہیں معلوم کہ سانحہ بلدیہ کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا؟ تو ان مظلوموں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیوں نہیں؟ بات تو پھر آفاق احمد صحیح کہتے ہیں کہ احمد پورشرقیہ میں جل کر مرنے والوں کی تعزیت آرمی چیف اور وزیراعظم بھی کرتے ہیں جو اچھی بات ہے مگر سانحہ بلدیہ کی جے آئی ٹی بھی سامنے نہیں لائی جاتی کیوں کہ یہ کراچی والے تھے؟ اختلاف اپنی جگہ مگر آج بھی کراچی میں الطاف کا جو ووٹ بینک قائم ہے کیا اس کے پیچھے اس میڈیا کا ہاتھ نہیں؟ 90 کی پریس کانفرنسوں میں جانے والے صحافیوں سے پوچھ لیں کہ کیا ان کی جرات تھی کہ وہ اپنی مرضی سے سوال کرسکیں؟ تو کہاں تھا اس وقت آزاد اور بے باک میڈیا؟ آج 2جوتے کیا پڑے رونے لگے اور کس بات کی حیرانی ہے مار کھانے والے چینلوں کے صحافیوں کو؟ صحافی یہ کیوں سوچتے ہیں کہ وہ ن لیگ کے جلوسوں میں جائیں گے تو ان کو دودھ جلیبی دی جائے گی؟ ان صحافیوں کو معلوم نہیں کہ وہ ایک عرصہ سے کیا رپورٹنگ کرتے آئے ہیں؟ حکمران جماعت کو اس کے انجام کی نوید سنانے والے اپنے انجام سے بے خبر کیوں تھے؟ بھائی جو بو رہے ہو وہی کاٹو گے ۔ تو اس میں حیرانی اور دکھ کی کیا بات ہے؟ حضور لوگوں کے جذبات ہوتے ہیں اسلام بار بار نرم زبان استعمال کرنے کی ہدایت کرتا ہے کہ وہ بات نہ کرو جس سے کسی دوسرے مسلمان بھائی کی دل آزاری ہو۔ میڈیا سوائے دل آزاری کے اور کیا کرتا ہے؟ اور اس کو نام دیتا ہے سچ کا۔ جب آپ پارٹی بنیں گے تو پارٹی تو ہوگی۔ میڈیا والے ایک عجیب بات کرتے ہیں؟ کہ ہم سچ بتاتے ہیں دنیا کو؟ میرے نزدیک اس سے زیادہ فضول بات کوئی نہیں کہ میڈیا سچ بتاتا ہے۔ اول یہ کہ سچ کو اپنی گوہی اور تشہیر کے لیے کسی سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ جب سورج نکلتاہے توکیاروشنی اس کی گواہی دیتی ہے یاچینل بتاتاہے کہ ناظرین سورج ایک بارپھرطلوع ہوگیااوریہ خبرہم نے سب سے پہلے آپ تک پہنچائی ؟ تم نہ بتاؤ تو کیا اثر پڑے گا؟ بعض لوگوں کو گمان ہو چلا ہے کہ میڈیا کی وجہ سے ملک میں مارشل لا نہیں لگ سکتا جو لوگ یہ دلیل دیتے تھے کہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ اسی میڈیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو واسطے دے رہے ہیں کہ مارشل لا لگ جائے۔ ہاں میڈیا کے آنے سے اتنا فائدہ ہوا ہے کہ اب مارشل لا کے نفاذ کی خبر پہلے کے مقابلے میں جلدی ناظرین تک پہنچ جائے گی۔ پوری دنیا میں ہر تہذیب میں سچ بولنے پر لوگوں نے بے عزتیاں برداشت کیں لوگ قتل ہوئے سولی لٹکائے گئے، مگر واحد میڈیا ہے جہاں سچ بولنے کے پیسے ملتے ہیں۔ کل ایک اینکر ایک چینل میں سچ بولتا تھا پھر دوسرے چینل نے زیادہ پیسے دیے اب وہاں سچ بولتا ہے۔ واہ واہ کیا سچ کی دنیا میں قیمت مل رہی ہے۔ میڈیا کے آنے سے انقلاب آنے کے امکانات تقریباً ختم ہوچکے ہیں۔ میڈیا نے جتنی دہشت گردی، وحشت، ظلم، ناانصافی اور سفاکی دکھائی ہے اتنی اگر لوگ صرف سنتے تو کب کے کچھ نہ کچھ کرلیتے۔ مگر دیکھ دیکھ کر لوگ عادی ہوگئے۔
کسی معاشرے میں میڈیا کے آنے سے انقلاب کے آنے کے امکانات کم یا ختم ہوتے ہیں بڑھتے نہیں ہیں مگر لوگ سمجھتے یہ ہیں کہ میڈیا انقلاب کے لیے مدد فراہم کرتا ہے۔ میڈیا کے نزدیک صرف اشتہار کی عزت ہے اگر اشتہار کا وقت آجائے تو طارق جمیل کی تقریر بھی کاٹ دی جاتی ہے اور لیموں پانی کا ٹائم چیک چلایا جاتا ہے کیا میڈیا اشتہار کے بغیر چل سکتا ہے؟ رہی بات میڈیا کے جو تے کھانے کی تو بھائی جب آپ کسی کے محبوب قائد کو بے عزت کرو گے اور پھر ان کے درمیان بھی جاؤ گے تو جوتے ہی پڑیں گے اور یہ علاج ہے۔ سیانے کہتے ہیں احتیاط علاج سے بہتر ہے۔ اگر اپنی زبان کا استعمال سوچ سمجھ کر کریں تو حالات ایسے نہ ہوتے جیسے آج ہیں باقی اگر کوئی اس مشورے پر عمل نہیں کرے گا تو یاد رکھیں پھر جوتے ہی میڈیا کا مقدر ہیں۔