اب کس کی باری؟

219

zc_MFعمران خان کا نعرہ ہے ’’اب کے باری۔ آصف زرداری‘‘ مفہوم اس نعرے کا یہ ہے کہ میاں نواز شریف کے بعد اب آصف زرداری کی باری ہے۔ ان کی کرپشن کا بھی پردہ چاک کیا جائے گا اور انہیں احتساب کے شکنجے میں کسا جائے گا جب کہ پیپلز پارٹی بھی تبدیلی کے ساتھ یہی نعرہ لگارہی ہے۔ اس کا نعرہ ہے ’’اب کے باری۔ پھر زرداری‘‘ اس نعرے کا مفہوم عمران خان کے نعرے سے بالکل مختلف ہے۔ اس نعرے کے ذریعے پیپلز پارٹی اپنے جیالوں کو یہ نوید سنا رہی ہے کہ میاں نواز شریف کا اقتدار ختم ہوگیا اب زرداری کی باری ہے۔ لطیفہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی پاناما کیس میں فریق ہی نہ تھی اُس نے اِس کیس کو عدالت میں لے جانے کی مخالفت کی تھی۔ پیپلز پارٹی کا موقف تھا کہ یہ جھگڑا پارلیمنٹ میں طے ہونا چاہیے اور ہمیں اپنا گریبان عدالت کے ہاتھ میں نہیں دینا چاہیے۔ اسے خوف تھا کہ کرپشن کا پنڈورا بکس کھلا تو اس کے لیڈر بھی اس کی زد میں آجائیں گے اور اس کی سیاست دھری کی دھری رہ جائے گی۔ لیکن عمران خان نے ایک نہ سنی وہ پارلیمنٹ سے باہر پاناما کیس کا تعاقب کرتے رہے۔ جماعت اسلامی بھی عدالت میں فریق رہی البتہ پیپلز پارٹی عدالت سے دور کھڑی تماشا دیکھتی رہی۔ اس کے لیڈر کیس کی سماعت کے دوران ایک دفعہ بھی عدالت میں نہیں آئے کیوں کہ انہیں اس کیس سے دلچسپی ہی نہ تھی لیکن جونہی کیس کا حتمی فیصلہ سامنے آیا اور میاں نواز شریف کو پورے خاندان سمیت نااہل قرار دے دیا گیا تو پیپلز پارٹی کود کر شامل باجا ہوگئی۔ اب مزیدار بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اسے اپنا کارنامہ قرار دے رہی ہے اور بلاول زرداری جلسوں میں یہ دعویٰ کرتے پھر رہے ہیں کہ تیر نے شیر کا شکار کرلیا ہے اب بلے کی باری ہے۔ واضح رہے کہ تیر پیپلز پارٹی کا جب کہ شیر مسلم لیگ (ن) کا انتخابی نشان ہے اور بلا تحریک انصاف کی پہچان ہے۔ بلاول زرداری اپنے کارکنوں کو یہ باور کرارہے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کو تو انتخابی میدان سے آؤٹ کردیا ہے اب تحریک انصاف اس کے نشانے پر ہے اور وہ دن دور نہیں جب تحریک انصاف بھی بھاگنے پر مجبور ہو جائے گی۔
سیاست کا یہ کھیل اب بڑے دلچسپ مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔ تینوں بڑی سیاسی جماعتیں اگرچہ ایک دوسرے کی تاک میں ہیں لیکن تین میں سے دو کا اصل مقابلہ صرف ایک جماعت یعنی تحریک انصاف سے ہے جب کہ تحریک انصاف یہ سمجھتی ہے کہ اس نے دو میں سے ایک یعنی مسلم لیگ (ن) کو ڈھالیا ہے۔ اب اس کا مقابلہ صرف پیپلز پارٹی سے ہے۔ اس نے پیپلز پارٹی کو ہرانے کے لیے اس کے اندر نقب زنی کی واردات شروع کر رکھی ہے۔ پیپلز پارٹی کے لیڈر ٹوٹ ٹوٹ کر تحریک انصاف میں شامل ہورہے ہیں لیکن یہ وہ لیڈر ہیں جو پہلے بھی اپنی وفاداریاں بدلتے رہے ہیں اور کرپشن میں بھی بڑا نام رکھتے ہیں۔ عمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اِن بدنام لوگوں کو اپنی پارٹی میں شامل کرکے انتخابات جیت لیں گے تو یہ ان کی بھول ہے۔ ٹکٹوں کی تقسیم کے موقعے پر ان لوگوں کو ترجیح دی گئی تو خود ان کی پارٹی میں پھوٹ پڑ سکتی ہے اور یہ پھوٹ اب بھی موجود ہے۔ تحریک انصاف کے جوانوں اور نظریاتی کارکن بہرکیف مایوسی کا شکار ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کرپٹ لوگوں کے تعاون سے جو ’’نیا پاکستان‘‘ بنانے جارہے ہیں وہ ان کے خوابوں کی تعبیر ہرگز نہیں ہے۔ خود عمران خان بھی زبردست تضادات کا شکار ہیں۔ ایک طرف وہ پیپلز پارٹی کے کرپٹ اور مفاد پرست لوگوں کو اپنی پارٹی میں شامل کررہے ہیں اور دوسری طرف اسی پارٹی کے سب سے بڑے لیڈر آصف زرداری کو چیلنج کررہے ہیں کہ میاں نواز شریف کے بعد اب تمہاری باری ہے، تم سے بھی لوٹی گئی دولت کا حساب لیا جائے گا۔ اس میں شک نہیں کہ کرپشن اور قومی خزانے کو لوٹنے میں زرداری کا کوئی ثانی نہیں ہے وہ بے نظیر بھٹو کے اولین دور حکومت سے لے کر آج تک اس کام میں مصروف ہیں، انہوں نے پورے سندھ کو اپنی مٹھی میں جکڑا ہوا ہے اور ان کے فرنٹ مین اب بھی تمام رکاوٹوں کے باوجود ہاتھ کی صفائی دکھا رہے ہیں۔ سندھ ان کے لیے سونے کی کان ہے وہ اسے مسلسل کھود رہے ہیں اور سونا نکال رہے ہیں۔
دلچسپ صورت حال یہ ہے کہ آصف زرداری اس وقت پاکستان کے سیاسی منظرنامے سے غائب ہیں، وہ خرابی صحت کے بہانے عین اُس وقت دبئی چلے گئے جب ملک میں پاناما کیس کا ہنگامہ برپا تھا اور پیپلز پارٹی کی حریف دونوں بڑی جماعتیں آپس میں دست و گریبان تھیں۔ زرداری یہ توقع لگائے بیٹھے تھے کہ
لڑتے لڑتے ہوگئی گم
ایک کی چونچ اور ایک کی دُم
ان کا خیال تھا کہ جب یہ صورت حال پیدا ہوگی تو وہ فتح کا ڈنکا بجاتے ہوئے واپس آجائیں گے لیکن نتائج ان کی توقع کے عین مطابق ظاہر نہیں ہوئے۔ اس لیے انہوں نے فی الحال اپنی واپسی موخر کردی ہے اور ’’تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو‘‘ کے مصداق عرصہ انتظاریہ میں ہیں۔ اِدھر مسلم لیگ (ن) عدالتی فیصلے سے نڈھال ضرور ہوئی ہے لیکن بے چاری نہیں ہوئی وہ اپنی عوامی طاقت کا مظاہرہ کررہی ہے جب کہ تحریک انصاف بھی پش اَپس لگانے میں مصروف ہے دونوں جماعتیں ابھی تک ایک دوسرے کو للکار رہی ہیں ایسے میں زرداری کا احتساب کیسے ہوگا اور ان کی باری کب آئے گی۔ ہمارے دوست کہتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ (ن) لیگ اور تحریک انصاف کی لڑائی میں واقعی ایک کی چونچ اور ایک کی دم گم ہو جائے اور زرداری صاف بچ نکلیں۔ ایسا ہوا تو پاکستان میں احتساب منہ چھپاتا پھرے گا۔