سیاست کا یہ کھیل اب بڑے دلچسپ مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔ تینوں بڑی سیاسی جماعتیں اگرچہ ایک دوسرے کی تاک میں ہیں لیکن تین میں سے دو کا اصل مقابلہ صرف ایک جماعت یعنی تحریک انصاف سے ہے جب کہ تحریک انصاف یہ سمجھتی ہے کہ اس نے دو میں سے ایک یعنی مسلم لیگ (ن) کو ڈھالیا ہے۔ اب اس کا مقابلہ صرف پیپلز پارٹی سے ہے۔ اس نے پیپلز پارٹی کو ہرانے کے لیے اس کے اندر نقب زنی کی واردات شروع کر رکھی ہے۔ پیپلز پارٹی کے لیڈر ٹوٹ ٹوٹ کر تحریک انصاف میں شامل ہورہے ہیں لیکن یہ وہ لیڈر ہیں جو پہلے بھی اپنی وفاداریاں بدلتے رہے ہیں اور کرپشن میں بھی بڑا نام رکھتے ہیں۔ عمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اِن بدنام لوگوں کو اپنی پارٹی میں شامل کرکے انتخابات جیت لیں گے تو یہ ان کی بھول ہے۔ ٹکٹوں کی تقسیم کے موقعے پر ان لوگوں کو ترجیح دی گئی تو خود ان کی پارٹی میں پھوٹ پڑ سکتی ہے اور یہ پھوٹ اب بھی موجود ہے۔ تحریک انصاف کے جوانوں اور نظریاتی کارکن بہرکیف مایوسی کا شکار ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کرپٹ لوگوں کے تعاون سے جو ’’نیا پاکستان‘‘ بنانے جارہے ہیں وہ ان کے خوابوں کی تعبیر ہرگز نہیں ہے۔ خود عمران خان بھی زبردست تضادات کا شکار ہیں۔ ایک طرف وہ پیپلز پارٹی کے کرپٹ اور مفاد پرست لوگوں کو اپنی پارٹی میں شامل کررہے ہیں اور دوسری طرف اسی پارٹی کے سب سے بڑے لیڈر آصف زرداری کو چیلنج کررہے ہیں کہ میاں نواز شریف کے بعد اب تمہاری باری ہے، تم سے بھی لوٹی گئی دولت کا حساب لیا جائے گا۔ اس میں شک نہیں کہ کرپشن اور قومی خزانے کو لوٹنے میں زرداری کا کوئی ثانی نہیں ہے وہ بے نظیر بھٹو کے اولین دور حکومت سے لے کر آج تک اس کام میں مصروف ہیں، انہوں نے پورے سندھ کو اپنی مٹھی میں جکڑا ہوا ہے اور ان کے فرنٹ مین اب بھی تمام رکاوٹوں کے باوجود ہاتھ کی صفائی دکھا رہے ہیں۔ سندھ ان کے لیے سونے کی کان ہے وہ اسے مسلسل کھود رہے ہیں اور سونا نکال رہے ہیں۔
دلچسپ صورت حال یہ ہے کہ آصف زرداری اس وقت پاکستان کے سیاسی منظرنامے سے غائب ہیں، وہ خرابی صحت کے بہانے عین اُس وقت دبئی چلے گئے جب ملک میں پاناما کیس کا ہنگامہ برپا تھا اور پیپلز پارٹی کی حریف دونوں بڑی جماعتیں آپس میں دست و گریبان تھیں۔ زرداری یہ توقع لگائے بیٹھے تھے کہ
لڑتے لڑتے ہوگئی گم
ایک کی چونچ اور ایک کی دُم
ان کا خیال تھا کہ جب یہ صورت حال پیدا ہوگی تو وہ فتح کا ڈنکا بجاتے ہوئے واپس آجائیں گے لیکن نتائج ان کی توقع کے عین مطابق ظاہر نہیں ہوئے۔ اس لیے انہوں نے فی الحال اپنی واپسی موخر کردی ہے اور ’’تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو‘‘ کے مصداق عرصہ انتظاریہ میں ہیں۔ اِدھر مسلم لیگ (ن) عدالتی فیصلے سے نڈھال ضرور ہوئی ہے لیکن بے چاری نہیں ہوئی وہ اپنی عوامی طاقت کا مظاہرہ کررہی ہے جب کہ تحریک انصاف بھی پش اَپس لگانے میں مصروف ہے دونوں جماعتیں ابھی تک ایک دوسرے کو للکار رہی ہیں ایسے میں زرداری کا احتساب کیسے ہوگا اور ان کی باری کب آئے گی۔ ہمارے دوست کہتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ (ن) لیگ اور تحریک انصاف کی لڑائی میں واقعی ایک کی چونچ اور ایک کی دم گم ہو جائے اور زرداری صاف بچ نکلیں۔ ایسا ہوا تو پاکستان میں احتساب منہ چھپاتا پھرے گا۔