’بابا ٹُم کیوں روٹا ہائے؟‘

221

zc_ZairOZabarکراچی سے نقل مکانی کیے ہوئے اور اسلام آباد میں جنت مکانی بنے ہوئے ہمیں کامل ستائیس برس ہوچکے ہیں۔ اِن ستائیس برسوں میں ہمارے دِل دار و راز دار و وفادار شہر پر کیا کچھ نہ بیت گئی۔ کچھ نہ پوچھیے۔ ہم تو اپنے شہر مالوف میں ہر آمدکے موقع پر نعیم صدیقی کے الفاظ میں، اپنے شہر کی ہر سنسان و ساکت صورت کو دیکھ کر اپنی ’حسرتوں کی دِلّی، اپنی حیرتوں کے روما‘ سے یہ پوچھتے ہی رہ جاتے ہیں کہ:
اے شہر دلبر بول کچھ، کیا تجھ پہ گزرے حادثے؟
کیوں ہیں دگرگوں کاخ و کُو؟ کیوں اجنبی ہیں بام و در؟
مگر جواب کہیں سے نہیں ملتا۔ ملے بھی کیسے؟ وہ لاجواب لوگ اب اِس شہر میں رہے ہی نہیں جو ہمیں جواب دے سکتے تھے۔ ہر دفعہ ایک نئی سناؤنی سننے کو ملتی ہے: ’’کچھ سنا تم نے؟ اب کے برس کے جاتے جاتے تمہارا یارِ طرح دار غضنفر بھی چلا گیا‘‘۔
غضنفر کے ساتھ بیتی راتیں، شامیں، دوپہریں اور صبحِ صبیح کی ولولہ خیز لہریں ۔۔۔ سب کی سب آنکھوں میں مچلنے لگتی ہیں۔ مگر خیر، غضنفر کا قصہ چھوڑیے۔ وہ پھر کبھی سہی۔ کیوں کہ یہ قصہ اُس کے ساتھ گزاری ہوئی عمر کی طرح طولانی ہے۔ اس وقت تو فقط یہ بتانا مقصود تھا کہ ہماری ہرآمد پر اس شہر کی ہم سے اجنبیت بڑھ جاتی ہے۔ کیسے نہ بڑھے؟
چپکے چپکے یوں تیزی سے شہر کا نقشہ بدلا ہے
ہم گویا اصحابِ کہف ہیں اور غاروں سے آئے ہیں
اب نہیں معلوم کہ صدر میں اب بھی ریگل چوک کے سامنے والی گلی میں ’نظامی دواخانہ‘ ہے یا نہیں؟ اس دواخانے کا محرابی بورڈ ہمیں بہت بھاتا تھا اور ہمارے لڑکپن کا تجسس بھرا دِل لُبھاتا تھا۔ نظامی دواخانے والی ہی گلی میں، ریگل چوک کی طرف سے داخل ہوں تو بائیں ہاتھ کو ’مَیری ایڈیلائیڈ لیپروسی سینٹر‘ (MALC) واقع تھا۔ گمان ہے کہ اب بھی ہوگا۔ اسی سینٹر میں ہم نے پہلی بار ڈاکٹر رُوتھ فاؤ کو دیکھا تھا۔ وہ بیالیس سال کی تھیں اور ہمارا سِن تھا پندرہ برس۔ یہ سَن ۱۹۷۱ء کی بات ہے۔ ڈاکٹر رُوتھ فاؤگویا اُس وقت ڈھلتی جوانی سے ادھیڑ عمری کی طرف مائل تھیں۔ بوائے کٹ بال۔ تروتازہ چہرہ۔ چہرے پر مسکراہٹ۔ یہ اُن کی دید کا پہلا منظر تھا کہ وہ شلوار قمیص پر ایپرن پہنے اور گلے میں اسٹیتھسکوپ لٹکائے، تھوڑی دیر کو اپنے کمرے سے باہر نکلی تھیں، ایک بوڑھے جذامی مریض سے یورپی لہجے اور ٹوٹی پھوٹی اُردو میں یہ پوچھنے کو: ’’بابا ٹم کیوں روٹا ہائے؟‘‘
انتظار کی قطار میں بیٹھا ہوا بوڑھا کراہ رہا تھا اور سسکیاں بھر رہا تھا۔ ڈاکٹر رُوتھ فاؤ نے اُسے جس طرح تسلیاں دیں، ہمارا دل بھی بھر آیا۔ کیا خبر کوئی آنسو بھی اُمڈآیا ہو۔ جاتے جاتے وہ ہمارے سرپر بھی ہاتھ پھیر تی گئیں۔ ان ہاتھوں کا لمس اپنے بالوں میں آج بھی محسوس ہوتا ہے۔ ہم ہر بُدھ کے بُدھ ‘MALC’ میں ابا جان کی دوا ؤں کی خوراک لینے جاتے تھے۔
اباجان خدا نخواستہ کوڑھ یا جذام کے مریض نہ تھے۔ ہوا یوں تھا کہ ایک بار شدید سردیوں میں وہ کراچی سے راولپنڈی گئے۔ سن ساٹھ کے بعد شروع ہونے والی دہائی کا کوئی سال تھا۔اغلب خیال یہ ہے کہ ۱۹۶۶ء رہا ہوگا۔ رات کو سوتے وقت ابا جان کے کمرے میں پتھر کے کوئلے کی انگیٹھی رکھ دی گئی۔ شاید اُس وقت پنڈی میں گھر گھر سوئی گیس نہ پہنچی ہویا شاید اُس وقت گیس کے ہیٹرز نے رواج نہ پایا ہو۔ بہر کیف! رات کو سوتے میں ابا جان کے منہ سے ڈراؤنی آوازیں نکلنے لگیں۔ جھٹ کمرہ کھولا گیا۔ انگیٹھی باہر نکالی گئی۔ دروازے کھڑکیاں کھول کر ’کاربن مانو آکسائڈ گیس‘ کو باہر نکلنے کا راستہ دیا گیا۔ جان تو بچ گئی مگر اتنی دیر میں وہ گیس اپنا کام کر چکی تھی۔
کچھ عرصہ بعد اباجان کے ہاتھ کی اُنگلیاں ٹیڑھی ہونے لگیں۔ جسم میں کہیں کہیں زخم بننے لگے۔ ایڑی کا ایک زخم تو ایسا گہرا ہوا کہ کسی کے علاج سے اچھا نہ ہوا۔ مشورہ دینے والوں نے مشورہ دیا کہ ڈاکٹر رُوتھ فاؤ ایسے امراض کی بہترین معالج ہیں، اُن سے رجوع کیا جائے۔ پہلے تو اباجان خود ہی چلے جاتے تھے۔ مگر بعد میں جب ضعف اور کمزوری میں اضافہ ہوگیا تو اُن کے ساتھ ہم بھی 15-A میں بیٹھ کر ملیر توسیعی کالونی سے صدر تک اُن کے ساتھ جانے لگے۔ جب کبھی صرف دوا دوہرانی ہوتی تھی تو ہم اکیلے بھی چلے جاتے اور جاکر دوا لے آتے ۔ ڈاکٹر رُوتھ فاؤ ہمیں (یا ہماری سعادت مندی) دیکھ کر بہت خوش ہوتی تھیں۔اپنی اُسی اُردو میں والد کا حال پوچھتیں اور بڑی شفقت سے پیش آتی تھیں۔ کبھی کبھی اُن کی جگہ ایک پاکستانی خاتون’ ڈاکٹر زرینہ فضل بھائی‘ بیٹھی ہوتی تھیں۔ جس روز ڈاکٹر رُوتھ فاؤ کی جگہ ڈاکٹر زرینہ ہوتیں اُس روز MALC جانے کا سارا مزا کِرکِرا ہوجاتا۔ گوکہ ڈاکٹر زرینہ بھی بڑی شفیق خاتون تھیں۔
دھندلا دھندلا سا ایک منظر یاد آتا ہے۔ ایک بار ڈاکٹر رُوتھ فاؤ ہمارے گھر بھی تشریف لائی تھیں۔ ملیر کالا بورڈ سے سعود آباد کی طرف بڑھیں تو ’سعودآباد تھانے‘ سے آگے چورنگی پار کرنے کے بعد کچھ فاصلے پر بائیں جانب واقع لڑکیوں کے ڈبل اسٹوری اسکول اور برف خانے کے درمیان سے ایک سڑک گویا لیاقت مارکیٹ کی سمت جاتی ہے۔ (اس گرلز اسکول کی ہیڈ مسٹریس کبھی حسین حقانی کی والدہ مسز سلیم حقانی ہوا کرتی تھیں) اُسی سڑک پر ڈاکٹر رُوتھ فاؤ نے جذام کے مریضوں کے لیے اپنا ایک مرکز اور کھول لیا تھا۔ جب وہ اپنی میڈیکل وین میں بیٹھ کر ہمارے گھر آئی تھیں تو اباجان کی میڈیکل بُک بھی ساتھ لائی تھیں۔ اُس زمانے میں ہمارے گھر میں صرف ایک کمرہ، ایک برآمدہ اور کچا صحن تھا۔ اُسی صحن میں تھوڑی دیر کو بان کی چارپائی پر بیٹھ کر انہوں نے ابا جان کا معائنہ کیا۔ دوائیں لکھیں اور ہمیں سمجھا کر ہدایت کی کہ صدر جانے کی ضرورت نہیں۔ یہ دوائیں تمہیں ملیر والے مرکز سے مل جائیں گی۔
جب اباجان کی حالت زیادہ بگڑ گئی تو ڈاکٹر رُوتھ فاؤ نے انہیں صدر میں واقع MALC میں داخل کر لیا۔ اب تو یاد نہیں کہ کتنے بستروں کا ہسپتال تھا، مگر وہاں مریض داخل بھی کیے جاتے تھے۔ ہمارا آنا جانا روز کا ہوگیا۔ اباجان کے لیے ہم گھر سے ’’جسارت‘‘ لے کر جاتے اور انہیں خبریں پڑھ کر سناتے۔ دوسرے مریض بھی سنتے تھے۔ ڈاکٹر فاؤ وہاں ہماری ’اخبار خوانی‘ کا منظر اور دیگر مریضوں کی دلچسپی دیکھ کر بہت خوش ہوتی تھیں۔ اپنے خاص انداز سے شاباش بھی دیتیں۔ ایک روز ہمارا مختصر انٹرویو بھی لیا۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ ہم قائد اعظمؒ کے قائم کردہ کالج (سندھ مسلم سائنس کالج) میں انٹر سائنس کے طالب علم ہیں تو اُن کی نظر میں ہماری قدر و منزلت مزید بڑھ گئی۔ ابا جان کے پاس روزانہ آنے جانے سے ڈاکٹر رُوتھ فاؤ سے مانوسیت بھی بڑھ گئی۔ ابا جان کی حالت روز بروز تشویشناک ہوتی جا رہی تھی۔ ایک روز انہوں نے کہا کہ اپنی والدہ کو لے کر آؤ ۔اُس روز والدہ ہی نہیں، بڑے بھائی اور کئی دیگر رشتے دار بھی ہسپتال گئے۔ ڈاکٹر فاؤ نے ہمیں ہٹا کر بڑوں کو ’بڑی خبر‘ سے آگاہ کر دیا۔ ایمبولینس کا انتظام کیا گیا۔ لوگ والد صاحب کو MALC سے گھر لے آئے۔ رات دو بجے یعنی ۱۸؍ دسمبر ۱۹۷۱ء کو والد صاحب کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد MALC اور ڈاکٹر رُوتھ فاؤ، دونوں سے ہمارا رابطہ منقطع ہو گیا۔
۱۹۷۷ء میں ہم نے گوئٹے انسٹیٹیوٹ سے جرمن زبان کا کورس شروع کر دیا۔ ایک روز صدر سے گزر رہے تھے کہ ’یادش بخیریا‘ نے جوش مارا اور ہم MALC میں داخل ہوگئے۔ ڈاکٹر فاؤ نے ہمیں دیکھتے ہی پہچان لیا۔ ٹوٹی پھوٹی یورپی اُردو میں ہم سے تعزیت کرنے لگیں کہ ۔۔۔ ’’بؤٹ ڈُکھ ہوا‘‘ ۔۔۔ مگر جب ہم نے اپنی اُستانی فراؤ آئک جیسے (اہلِ زبان کے) لہجے میں اُن کا شکریہ Deutsch یعنی جرمن زبان میں ’’درست شین قاف‘‘ کے ساتھ ادا کیا تو وہ دنگ رہ گئیں۔ اُن کی خوشی اور حیرت دیدنی تھی۔ مزید کچھ سوالات کیے اور ہمیں اپنے پرس سے 500/= روپے نکال کر دینے لگیں۔ ہم نے انکار کیا تو ماؤں کی سی خفگی سے ڈانٹا اور کہا:
“Es ist Ihre Auszeichnung”
’’یہ تمہارا انعام ہے!‘‘
اُس زمانے میں ہم کے ای ایس سی میں ملازم تھے اور ہماری مجموعی تنخواہ 350 روپے تھی۔
جمعرات ۱۰؍ اگستسے، جب سے اُن کے انتقال کی خبر سنی، سب یادیں یلغار کرنے لگی ہیں۔ (اس کالم کو مختصر جانیے، یہی کالم پوری تفصیل کے ساتھ ان شاء اللہ آپ جمعہ ۱۸؍ اگست ۲۰۱۷ء کے ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ میں پڑھ سکیں گے) وہ تیس برس کی ’بالی عمریا‘ میں پاکستان آگئی تھیں اور ستّاسی برس کی بوڑھی عمر میں اسی شہر سے عالم بالا کو رُخصت ہوئیں۔ صاحبو! اب تو ہماری ڈاڑھی کے بال بھی سفید ہو گئے ہیں۔ اگر آج وہ ہماری یہ کیفیت دیکھ پاتیں تو شاید ہم سے بھی یہی پوچھتیں:
’’بابا ٹم کیوں روٹا ہائے؟‘‘