بظاہر اسمبلی کا پانچ سال تک قائم رہنا کامیابی ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ چار سال میں ملک میں بجلی کا بحران ختم نہیں کیا جاسکا، روزگار میں اضافہ نہیں ہوا، پی آئی اے ، پاکستان اسٹیل اور ریلوے جیسے اداروں کو استحکام نہیں ملا بلکہ تباہی کے کنارے پہنچا دیا گیا ۔ اب جان چھڑانے کی باتیں ہو رہی ہیں ۔ اس اعتبار سے یہ تبصرہ زیادہ بہتر ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی بڑی جماعتیں عوام کے مسائل حل کیے بغیر پارلیمنٹ کی مدت مکمل کرنے میں کامیاب رہیں۔ قوم نے ارکان اسمبلی کے انتخاب کے وقت انہیں اسی لیے اسمبلیوں میں بھیجا تھا کہ وہ ان کے مسائل حل کریں گے جن کو حکومت ملی تھی ان کے ذمے مسائل کا حل اور جن کو نہیں ملی ان کو نگرانی، احتساب اور قانون سازی کی ذمے داری ملی ۔ لیکن سب نے مل کر صرف قوم کا وقت ضائع کیا۔ بہرحال اب واپسی کا سفر شروع ہو چکا ہے۔ روزانہ نامعلوم قوتوں پر الزام دھرتے دھرتے اچانک ایک دن بول پڑے کہ پانچ ججوں نے 20کروڑ عوام کو نااہل کیا ہے۔ لیکن میاں صاحب یہ نہیں بتاتے کہ لوگ تو واقعی ووٹ دے کراسمبلیوں میں بھیجتے ہیں لیکن جو کچھ ہمارے حکمران کرتے ہیں کیا اس کے لیے عوام بھیجتے ہیں ۔ قومی خزانے کی لوٹ مار ، اپنے خاندان کو نوازنے کا سلسلہ، قومی اداروں کو تباہ کرنا ہو یا ان کو نجکاری کے نام پر عزیزوں رشتے داروں کے حوالے کرنا ، ان میں سے بھی تو کوئی کام نہیں کرنا چاہیے تھا ۔ میاں صاحب کا یہ کہنا بجا ہے کہ الزام پاناما کا لیکن نا اہلی اقامے پر یہ ایک بڑا سوال ہے۔ میاں صاحب کے جلوسوں اور استقبال کو دیکھ کرلگ رہا ہے کہ انہیں تو پورے ملک میں آنے والے انتخابات کی تیاریوں کے لیے میدان اور موقع فراہم کردیا گیا ۔