پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ دھماکے میں 8 سیکورٹی اہلکار شہید ہوئے۔ دھماکے میں سیکورٹی کی آن ڈیوٹی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا جب کہ زخمیوں میں بھی 10 سیکورٹی اہلکار شامل ہیں۔ آرمی چیف نے کوئٹہ میں پاک فوج کے ٹرک کو نشانہ بنانے کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دھماکا جشن آزادی کی خوشیوں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے جب کہ اس قسم کے حملے ہمارے حوصلے پست نہیں کرسکتے۔
یومِ آزادی پاکستان کے ماہ میں اس طرح کی دہشت گردی کے واقعات کا ہونا کوئی نئی بات نہیں ۔یہ سلسلہ گزشتہ کئی سالوں سے چل رہا ہے۔ اس کی ابتدا میں 2002ہوئی اس سال اس طرح کے تین واقعات رپورٹ ہوئے تھے لیکن 2004 کے بعد اب تک کوئی ایسا سال نہیں گزرا ہو جب ماہ اگست میں ملک کے کسی شہر میں دہشت گردی کا خوفناک واقعہ پیش نہ آیا ہو ۔ یہی نہیں بلکہ ماہ ستمبر اور دسمبر میں بھی اس عرصے میں ایسے واقعات سے ملک محفوظ نہیں رہا۔ یعنی پاک وطن کے لوگ گزشتہ 15سالوں سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ ان واقعات میں کیا کچھ ہوا اس کی تفصیل آگے بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔لیکن پہلے ذرا غور کیجیے کہ اس بار ماہ اگست میں کوئٹہ کیوں خون میں نہاگیا؟ایک ہی جملے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ سیکورٹی کے اداروں کی ناکامی ہے ۔آپریشن ردالفساد پر سوال ہے۔ لیکن سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ اقتدار سے اچانک ہی محروم ہوجانے والے میاں نواز شریف تمام حالات سے واقف ہونے کے باوجود جب ملک کے سب سے بڑے صوبے کو چار چار دن تک ’’ڈسٹرب‘‘ رکھیں گے اپنی ناکامی کا رونا روکر معصوم عوام سے ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش میں اہم سرکاری اداروں اور پولیس کو ’’ انگیج ‘‘ کرکے سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائیں گے تو پھر دہشت گردی کے واقعات کا رونما ہونا حیران کن یا عجوبہ نہیں ہوتا۔ دہشت گرد ایسے ہی مواقعوں کے منتظر رہتے ہیں جب سیکورٹی کے اداروں اور لوگوں کی توجہ منقسم رہتی ہے۔مسلم لیگ نواز اور خود نااہل وزیراعظم خود تمام حالات سے بخوبی واقف تھے تو آخر پھر انہوں نے اپنے گھر روانگی کے لیے اس قدر بڑی ریلی کا اہتمام کرکے سرکاری خزانے کو مالی نقصان پہنچانے کے ساتھ عوام کا وقت کیوں ضائع کیا؟ خصوصاً ماہ اگست میں جب سب ہی کو خدشات رہتے ہیں کہ دشمن کچھ بھی کرسکتا ہے اس لیے ملکی اداروں کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے ایسی کوئی صورت حال پیدا نہیں کرنی چاہیے جو کسی خوفناک حادثے کا باعث بنے ۔
نااہل وزیراعظم مسلسل عوام سے یہ سوال کررہے ہیں کہ ’’ ان کا قصور کیا تھا ، انہیں کیوں نکالا گیا؟‘‘۔لوگوں کا کہنا ہے کہ میاں صاحب آپ نے اقتدار میں رہ کر علاوہ باتیں ہی تو کیں ہیں یہی قصور کیا کم ہے آپ کا ۔ لوگوں کے تحفظ سے زیادہ اپنے مفادات کی حفاظت آپ کی ترجیحات رہی ۔ نواز شریف نااہل قرارپانے کے باوجود اپنے آپ کو عوامی عہدوں کے لیے اہل ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ کوئٹہ میں بم دھماکے کے واقعے انہیں آئینہ دکھانے کے لیے کافی ہے۔ میاں صاحب نااہلی کے بعد سے پاک فوج اور عدلیہ پر تنقید کررہے ہیں مگر انہیں اپنے آپ کو دیکھنے اور اپنے رویے کو جانچنے کی فرصت نہیں ہے۔ قوم آج نواز شریف اور حکمرانوں سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ چار سال سے مسلسل اقتدار میں رہنے کے باوجود دہشت گردی کے سدباب کے لیے اطمینان بخش اقدامات کیوں نہیں کیے گئے۔ کڑوی حقیقت تو یہ بھی میاں نواز شریف کے اقتدار کے دوران ان کا اپنا صوبہ اور شہر دہشت گردی کی لپٹ میں رہا مگر اس کے باوجود کوئی انتظامات اور اقدامات دیکھنے میں نہیں آئے۔
کوئی کچھ بھی کہے لیکن میں ایک محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ کوئٹہ میں دہشت گردی کا افسوسناک واقعہ ہمارے دشمن ممالک کی کارروائی ہے اور زیادہ شبہ یہی ہے کہ اس میں پڑوسی ملک اوراس کے اسکرپٹڈ کردار کا ہاتھ ہے۔مجھے اس لیے شبہ ہے کہ پاکستان کے دشمن اول بھارت کو ماہ اگست شروع ہوتے ہی ایسی پریشانی شروع ہوجاتی ہے جس کا مداوا وہ پاکستان کے اندر اس طرح کی دہشت گردی کرکے کرتا ہے۔ ملک کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہر سال ماہ مارچ ، اگست ، ستمبر اور دسمبر دہشت گردی کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
گزشتہ سال اسی مہینے کی سات تاریخ کو سول اسپتال کوئٹہ میں بم خودکش بم دھماکے کے نتیجے میں وکلا ، صحافیوں سمیت 70سے زائد افراد شہید ہوگئے تھے ۔اور اس سال 11اگست کو دہشت گردی کی تاریخ دہرادی گئی۔ افسوس اس بات پر ہے کہ خدشات اور اطلاعات کے باوجود اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے کوئی غیر معمولی اقدامات شہریوں کو دکھائی نہیں دیتے ۔
سال 2002 سے اب تک صرف ماہ اگست میں ہونے والے دہشت گردی کے مختلف واقعات میں جن فائرنگ اور دھماکوں کے واقعات شامل ہیں کم از کم 934افراد جاں بحق اور 1500افراد زخمی ہوچکے ہیں۔ان واقعات پر غور کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ وطن عزیز کی یوم آزادی کے موقع پر دشمن کس قدر موقع کی تلاش میں رہتا ہے ۔1999میں کارگل پر پاک فوج کی چڑھائی کے بعد بھارت نے جہاں اپنی فوجی حکمت عملی تبدیل کی وہیں پر اپنی خفیہ ایجنسی راہ کو بھی مزید فعال کیا ۔سال 2002کے بعد بھارتی ایجنسی را نے جہاں اپنا سالانہ بجٹ میں غیر معمولی اضافہ کیا ہے ۔ پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی میں بھارتی خفیہ ایجنسی اور بھارت کے ملوث ہونے کے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں مگر ناجانے کیوں ہماری سیاسی قیادت نے ہمیشہ ہی سے بھارت سے مفاہمت اور دوستی کو ترجیح دی جب کہ بھارت کی طرف سے ہمیشہ ہی اس کے برعکس ردعمل ظاہر کیا گیا۔ ہر سال اگست، ستمبر اور دسمبر میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں بھارت کے ملوث ہونے کے شواہد موجود ہیں۔ پاکستانیوں کو یقین ہے کہ بھارت کے عسکری پسندوں کی آنکھوں میں ان مہینوں میں ’’خون اتر آتا ہے ‘‘۔ وہ پاکستان اور پاکستانیوں سے انتقام لینے کے لیے ان مہینوں میں غیر معمولی فعال رہتے ہیں۔ 11اگست کو کوئٹہ کا واقعہ بھی اسی سلسلے کا حصہ ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ہمارے حکمراں اور ایجنسیاں آخر کب تک بھارت یا کسی اور ملک کے ہاتھوں اس طرح کی دہشت گردی کا شکار رہیں گے۔ آخر کب دشمنوں کو منہ توڑ جواب دیا جائے گا؟؟