پاکستان سے پہلے بھی یہ پاکستان ہمارا تھا

188

zc_GhazalaAzizزندگی میں فیصلے کرتے ہوئے دو کیا چار رُخ بھی آتے ہیں۔ کبھی ایک سے اور کبھی کئی سے کترانا پڑتا ہے کہ راہ تو ایک ہی لینی ہوتی ہے۔ دو کشتیوں کی سواری یا کئی راہوں کے مسافر کو منزل تک پہنچنا مشکل نہیں ناممکن ہوتا ہے۔ کبھی یہ دوراہے جھوٹ سچ کے ہوتے ہیں کبھی حق ناحق کے اور کبھی زندگی موت اور کبھی خیال اور حقیقت کے۔
کبھی یہ سارے دوراہے ایک ساتھ فیصلے کا تقاضا کرتے ہیں۔ ان لمحوں میں صبح آزادی کے اولین مسافروں نے ایک راستہ چنا۔ آزادی کا راستہ۔ پھر آنکھوں میں ایک خواب لیے اور دل میں چاند ستارے کی محبت بسائے وطن کی سرزمین پر قدم رکھا۔ تو پورے عزم اور حوصلے سے ہر امتحان سے گزرنے کا عہد کیا۔ سب کچھ ہار کر حوصلہ نہ ہارا۔
ہار گئے تھے سب کچھ لیکن حوصلہ کس نے ہارا تھا
پاکستان سے پہلے بھی یہ پاکستان ہمارا تھا
آنکھوں میں اِک خواب تھا، روشن دل میں چاند ستارا تھا
پاکستان سے پہلے بھی یہ پاکستان ہمارا تھا
پاکستان سے پہلے بھی پاکستان کی موجودگی کا احساس لیے آنے والے لٹے پٹے مسافروں میں کم مائیگی کا احساس نہیں تھا۔ وطن تھا ذرہ زذہ ماہ تاباں بنانے کا عزم۔ پھر نسلوں کا ایک تسلسل تھا جو گزرتا رہا۔ کسی کا عزم آہنی تھا تو کسی کا عزم ریت کی بھربھری دیوار۔ بس جو گزر گئے سو گزر گئے۔ اب اس آزادی کے نگہبان ہم ہیں۔ ہم سب…… اس آزادی کی ہم کو قدر کرنی چاہیے۔
ستر سال پہلے برصغیر ہند و پاک کی تقسیم انتہائی پرتشدد ماحول میں ہوئی حالاں کہ برطانیہ چاہتا تو بہت پرامن ماحول میں سہولت اور آسانی کے ساتھ سارا معاملہ نمٹ سکتا تھا۔ برصغیر ہند و پاک برطانوی راج کی سب سے بڑی نوآبادی تھی۔ جس کی تقسیم پر برطانیہ بالآخر اگست 1947ء میں کئی ماہ کے سیاسی تعطل کے بعد رضا مند ہوا، اس بات پر کہ ہندوستانی مسلمانوں کے اس خدشے کو خاطر میں لایا جائے کہ ہندو اکثریت والے آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کو عدم تحفظ اور خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چناں چہ ملک کو تقسیم کرکے مسلمانوں کے لیے الگ وطن ’’پاکستان‘‘ قائم کردیا گیا۔ اس عمل میں دو صوبوں پنجاب اور بنگال کو تقسیم کرنا تھا۔ لیکن یہ انگریزوں کی بدنیتی تھی کہ آزادی کے اعلان سے پہلے یہ نہیں بتایا گیا کہ دونوں ملکوں کی سرحدیں کن کن علاقوں سے گزریں گی۔
کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان کی سرحدوں کا اعلان آزادی کے دو دن بعد 17 اگست کو کیا گیا۔ اس اعلان کے بعد جو افراتفری مچی اُس سے آلام و مصائب کا ایک ایسا طوفان کھڑا کیا کہ جس کی مثال عالمی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ بے پناہ خونریزی ہوئی۔ اس سے 80 فی صد متاثرین مسلمان تھے۔ یہ انگریزوں کا سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔ انہوں نے اپنے دور اقتدار میں بھی مسلمانوں کو شدید مظالم کا نشانہ بنایا اور جاتے جاتے بھی انہیں آزادی کے لیے خون کا دریا عبور کرنے پر مجبور کیا۔ ساتھ ہی کشمیر کی صورت میں ایک ایسا ناسور دے دیا جو روز رستا ہے۔ جس کے باعث دونوں ملکوں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ایک مستقل چپقلش ہے۔ ہندوستان کی تقسیم میں کون سا حصہ ہندوستان میں رہے گا اور کون سا پاکستان میں جائے گا یہ فیصلہ کرنے کی ذمے داری ریڈ کلف کو دی گئی تھی، لندن میں برٹش لائبریری میں ریڈ کلف کے پرائیویٹ سیکرٹری کرسٹوفر بومنٹ کا 1992ء میں ٹیلی گراف کے لیے لکھا ہوا ایک مضمون موجود ہے۔
اس مضمون میں لکھا ہے کہ اس وقت کے ہندوستان کے وائسرائے ماونٹ بیٹن نے سر ریڈ کلف کو اپنے گھر دعوت میں بلایا، کھانے کی میز پر دونوں کے درمیان تفصیلی گفتگو ہوئی جس نے پنجاب کے کئی اضلاع کی تقدیر بدل دی۔ ان اضلاع میں ایک فیروز پور بھی تھا، فیروز پور پاکستان میں شامل تھا لیکن آخری لمحے میں ماونٹ بیٹن کے کہنے پر فیروز پور ہندوستان کے حوالے کردیا گیا۔ تا کہ ہندوستان کو کشمیر کا راستہ دیا جاسکے۔ اس فیصلے نے پنجاب میں بہت بڑا سانحہ پیدا کیا، اس وقت کے پنجاب کے گورنر ’’ایون جنکنز‘‘ کو بھی اس بات پر حیرانی تھی کہ ماونٹ بیٹن نہرو کے دباؤ میں آگئے۔ جس کی وجہ سے ہزاروں معصوموں کی جانیں گئیں۔ برطانیہ کی اس غیر دانش مندانہ اور غیر عادلانہ تقسیم کا نتیجہ بہت برا ہوا تھا۔ لیکن اس آخری پل میں ہونے والے فیصلے نے تو حالات کو انتہائی بدتر کردیا۔
ماہ تما گاندھی نے آج سے ستر سال قبل 6 اگست 1947ء میں ریاست کشمیر کا دورہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’کشمیر کی قسمت کے فیصلے کا حق عوام کو ہے۔ اور ریاست جموں و کشمیر میں عوام کی رائے ہی سب سے بڑا قانون ہے۔
افسوس ہندوستان کی ریاست نے اپنے آزادی کے اس رہنما کی رائے پر توجہ نہیں دی۔ کشمیری پچھلے کئی عشروں سے بھرپور انداز میں پاکستانی پرچم لہرا کر مظاہرے اور ہڑتالیں کرکے اپنی رائے کا اظہار کررہے ہیں۔ لیکن جواب میں انہیں موت اور اذیت ناک حالات سے نوازا جارہا ہے۔ بھارت مسئلہ کشمیر کو خود اقوام متحدہ میں لے کر گیا۔ جہاں ان کے حق خودارادی کے لیے سلامتی کونسل میں قرار داد منظور ہوئی۔ لیکن وہ مسئلہ کشمیر کے حل کی بات کو اپنے داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتا ہے۔ اس سلسلے میں اقوام عالم کو بھارت پر دباؤ ڈالنا چاہیے۔ اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے کرواکر جنوبی ایشیا کے اس سلگتے ہوئے مسئلے کو حل کرنا چاہیے، اس سلسلے میں برطانوی حکومت کی ذمے داری دوسرے ممالک کی نسبت زیادہ ہی ہے۔