میاں نواشریف کے حکومتی منظر سے ہٹتے ہی پہلے سخت گیر کہلائے جانے والے خواجہ آصف نے وہ لائن اختیار کی جس پر چلنے سے میاں نوازشریف چار سال احتراز اور احتیاط کرتے رہے اور اس کے بعد وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی بہت کھل کر ایک الگ راستہ اختیار کرتے ہوئے پائے گئے۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف کے بعد وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی ایک انٹرویو میں بھارت اور کشمیر کے حوالے سے سخت لائن اختیار کرنے کی کوشش کی ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں کہا کہ میں بھارت کو دوست نہیں کہہ سکتا۔ مسئلہ کشمیر کے حل ہونے تک بھارت سے تعلقات بہتر نہیں ہو سکتے۔ خارجہ پالیسی سب کو مل کر نافذ کرنا ہوگی۔ شاہد خاقان عباسی کا یہ موقف مسلم لیگ ن کے موقف میں ایک انقلابی تبدیلی کا پتا دے رہا ہے۔ میاں نوازشریف اور فوج کے درمیان اصل اور مستقل وجہ تنازع بھارت پالیسی ہی رہی ہے۔
میاں نوازشریف نے بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے بڑے فیصلوں کی راہ اختیار کی تو ملک کی طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ نے اس کوشش کو قبول نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بھارت مسئلہ کشمیر کو تاریخی تناظر اور زمینی حقیقتوں کی روشنی میں حل کرنے کے بجائے ایک ایسے فارمولے کے تحت حل کرنا چاہتا تھا جسے ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ اس فارمولے کے تحت بھی بھارت زیاد ہ سے زیادہ آزادکشمیر پر اپنا دعویٰ ترک کر کے جواباً وہ پاکستان سے یہ چاہتا تھا کہ وہ سری نگرپر اپنے روایتی دعوے سے دستبردار ہوجائے اور اس میں کنٹرول لائن کو مستقل سرحد قرار دے کر نرم کر دیا جائے۔ بھارت پاکستان کو سری نگر میں ایک سیاح کی حیثیت سے خوش آمدید کہنے کو تو تیار ہے مگر اس سے آگے کچھ اور قبول کرنے کو تیار نہیں۔ یہ فارمولے ہر دور میں گردش کرتے رہے ہیں۔ ایوب خان کے دور میں تو اسی مسئلے کو حل کرنے کے لیے پاک بھارت کنفیڈریشن کی تجویز بھی پیش کی گئی تھی جسے ایوب خان نے پائے حقارت سے ٹھکرا دیا تھا۔ فوج اور وادی کشمیر کے ایک موثر حلقے کو مسئلہ کشمیر کا اس انداز سے حل قبول نہیں ان کا خیال ہے کہ یہ طویل قربانیوں کو ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ اس وجہ جب بھی ملک کی کوئی حکومت اس طویل پس منظر اور کہانی کے سیاق وسباق سے ہٹ کر آؤٹ آف باکس حل کی طرف بڑھتی ہے تو اس کا مطلب داخلی تصادم کی طرف بڑھنا ہوتا ہے۔ صرف سیاسی حکومت ہی نہیں فوجی حکومت اور حکمران بھی اس جادو نگری میں پتھر کے ہو کر رہ جاتے رہے۔ جنرل مشرف اس کی تازہ اور زندہ مثال ہیں۔ انہیں ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے بھارت کے ساتھ معاملات ٹھیک کرنے اور مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے بہت ڈھیل دی، امریکا نے انہیں امن عالمی نوبل پرائز کا سراب دکھا کر بھگایا اور انہوں نے آگے نکل کر مسئلہ کشمیر حل کی کوشش کی مگر جب انہوں نے یہ کہہ کر کہ اگر بھارت مسئلہ کشمیر حل کرنے پر آمادہ ہو تو پاکستان سری نگر پر اپنے دعوے سے دستبردار ہو سکتا ہے، سرخ لائن عبور کی تو وکلا تحریک نے ان کا اقتدار ڈبودیا۔
میاں نوازشریف کی حکومت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ان کی بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش رہی ہے اور اب جب کہ وہ منظر سے ہٹ چکے ہیں تو مسلم لیگ ن کی حکومت کے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ بڑھ چڑھ کر بھارت اور کشمیر پر وہ بیانات دے رہے ہیں جو نہ دینے پر میاں نوازشریف معتوب ہوتے چلے گئے تھے۔ اسے مسلم لیگ ن کی حکومت کی بھارت اور کشمیر پالیسی میں انقلابی تبدیلی بھی کہا جاسکتا ہے اور یہ نظریۂ ضرورت بھی ہو سکتا ہے۔ اگر ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں کشمیر جیسے مسائل پر قومی اور باوقار پالیسی اپنائیں، خارجہ پالیسی کو بقول شاہد خاقان عباسی مل کر نافذ کریں تو سول ملٹری کشمکش کے امکانات کم از کم ہو سکتے ہیں۔ نوازشریف کی رخصتی کے بعد اب ان کے اپنے رفقاء اور جانشین ایک نئی لائن اختیار کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بھارت سے تعلقات کی خواہش اور کوشش میں میاں نوازشریف تنہا تھے اور مسلم لیگ ن کا مینڈیٹ بھارت سے دوستی کا ہرگز نہیں تھا۔ سوال یہ ہے کہ خارجہ پالیسی کو مل جل کر نافذ کرنے اور بھارت کو دوست نہ سمجھنے کی جو بات ایک عام سیاسی کارکن شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم ہاؤس میں قدم رکھتے ہی سمجھ آگئی وہ صاحبِ بصیرت اور قائد اعظم ثانی میاں محمد نوازشریف اپنی تین حکومتوں اور چالیس سالہ سیاسی زندگی میں کیوں نہیں سمجھ سکے؟