خواتین کی تعلیم و تربیت

1612

مفتی محمد تبریز عالم
جہاں اس امر کا انکار اسلامی نقطۂ نظر سے ناممکنات میں سے ہے کہ مردوں کے لیے اتنا علم اور اتنی دینی تعلیمات بے حد ضروری ہے ، جس سے وہ دین پر صحیح طور سے عمل پیرا ہو سکیں اور شریعت کے مطالبات کو روبۂ عمل لا کر نگاہِ شریعت میں معتبر بن سکیں ، وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ عورتوں کے لیے دینی تعلیم و تربیت سے آگاہ ہونا اور دینی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونا ، آیندہ کی دائمی حیات کے لیے ناگزیر ہے ، اور اسی دینی تعلیم و تربیت کو رو بہ عمل لا کر کے ایک عام قومی بیداری اور اجتماعی شعور کو ترقی دینے کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے اور چوں کہ عورت کے کئی رنگ ہیں، کبھی وہ رحمت کی شکل میں بیٹی کے روپ لیے ہوتی ہے ، تو کبھی پیاری بہن ، کبھی کسی کی شریک حیات ہوتی ہے ، تو کبھی ماں کی شکل میں شجر سایہ دار، اس لیے اس کی ذمہ داری کچھ زیادہ ہی بڑھ جاتی ہے اور اس کے لیے زیور تعلیم کی قیمت،سونے چاندی سے بھی بڑھ جاتی ہے ، چوں کہ اسلام سے قبل عورتوں کی تعلیم کی طرف توجہ نہیں دی جاتی تھی ، اس لیے آپ نے لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کی طرف خاص توجہ دلائی ، آپ کا ارشاد ہے جو شخص اپنی بیٹی کی خوب اچھی طرح تعلیم و تربیت کرے اور اس پر دل کھول کر خرچ کرے تو (بیٹی) اس کے لے جہنم سے نجات کا ذریعہ ہو گی( المعجم الکبیر للطبرانی 10447)امام بخاری نے تعلیم نسواں کے سلسلے میں ایک پورا باب ہی قائم کیا ہے ۔ باب عطۃ الامام ، النساء و تعلیمہن، حضور ﷺ جس طرح صحابہ کرام ؓ کو پندو نصیحت کیا کرتے تھے ویسے ہی صحابیئات کے درمیان بھی تبلیغ دین فرمایا کرتے تھے ۔
ایک بیٹی ، رحمت اسی وقت بن سکتی ہے ، جب کہ اس کا قلب اسلامی تعلیمات کی روشنی سے منور ہو ، وہ فاطمی کردار و گفتار کا پیکر ہو ۔ ایک عورت ، مرد کے لیے شریک حیات کی شکل میں ، روح ، حیات اور تسکین خاطر کا سبب اسی وقت بن سکتی ہے ، جب کہ اس کا دل سیرت خدیجہؓ سے سر شار ہو ، وہ ایک مشفق اور ہر درد کا درماں ، مصائب کی گرم ہوائوں میں ، نسیم صبح کی صورت میں ’’ماں‘‘ اسی وقت ثابت ہو سکتی ہے ، جب کہ اس کی گود بچے کے لیے پہلا اسلامی مکتب ثابت ہو، وہ بھائیوں کی محبتوں کا مرکز و ملجا اسی وقت وہ سکتی ہے جب کہ اس کے جذبات و احساسات ایسے ہو جائیں ، جیسے حضرت عائشہ ؓ کے جذبات ، اپنے بھائی حضرت عبدالرحمن کی وفات کے بعد امت کے سامنے آئے ۔
اسلامی زندگی کے سفر میں نام نہاد مغربی تعلیم و تہذیب کے دھوکہ دینے والے چراغ کافی نہیں ہیں ، بلکہ اس سفر کی منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے اسلامی تعلیمات کے روشن ستاروں سے نسبت رکھنا بے حد ضروری ہے۔ مغربی تہذیب کے چراغ کسی بھی وقت بجھ سکتے ہیں ، لیکن اسلامی تعلیمات کے ستاروں کی ضیا پاشی اور تابندگی کی بقاء حیات ایک زندہ جاوید حقیقت ہے ۔
عصر حاضر اور ہماری کوتاہیاں
لیکن آج تعلیم گاہوں اور دینی تعلیمات کے متعدد ذرائع کے موجود ہونے کے باوجود ، دینی تعلیم سے بے رغبتی اپنی انتاء کو پہنچی ہوئی ہے ، جس مذہب نے دینی تعلیم کو تمام مردوں عورتوں کے لیے فرض قرار دیا ہو اور جس مذہب میں علم و حکمت سے پر قرآن جیسی عظیم کتاب ہو اور جس مذہب کی شروعات ہی ’’اقراء‘‘ یعنی تعلیم سے ہوتی ہو، اسی مذہب کے ماننے والے دینی تعلیم کے میدان میں سب سے پیچھے ہیں اور اگر بات عورتوں کی مذہبی تعلیم کی ، کی جائے(نہ کہ محض عصری و مغربی تعلیم) تو معاملہ حد سے تجاوز ہوتا ہوا نظر آتا ہے ، کہتے ہیں کہ ماں کی گود بچوں کے لیے پہلا مکتب ہوتا ہے ،ا ب اگر ماں ہی دینی تعلیم سے بیزار ہو تو اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ بچے پر کیا اثرات پڑیں گے ، آج خواتین کو قرآن و حدیث کے مطالعے کی فرصت نہیں، نتیجتاً وہ اپنے بچوں کے لیے بھی اس حوالے سے متفکر نہیں ہوتیں ، عورتوں کا بہت بڑا طبقہ ایسا ملے گا ، جسے سیرت رسول ﷺ کی موٹی موٹی باتیںمعلوم نہیں ،طہارت و عبادت بالخصوص نماز کی بجا آوری تو دور کی بات ، ان کے مسائل سے تشویش ناک حد تک نا واقفیت ہے ، حقوق ، والدین ، حقوق زوج اور دیگر ہے ، حقوق والدین ، حقوق زوج اور دیگر چھوٹے بڑے افراد خانہ کے حقوق سے غفلت روز افزوں ہے ۔ نوبت بایں جارسید کہ ٹھوس اسلامی تعلیمات سے دوری نے مسلم خواتین کو یہ منفی سبق پڑھایا کہ پردہ ، آزادی نسواں کے لیے سدراہ ہے اور نام نہاد ترقی کا دشمن ہے اور اس کا چراغ خانہ ہونا قد امت پسندی ہے ۔ اسے جدیدیت کا لبادہ اوڑھ کر شمع محفل بن جانا چاہیے ، مضبوط دینی تعلیمات سے لا علمی نے ساس بہو کے جھگڑے پیدا کر دیے ، دینی تعلیمات سے اجتناب نے طلاق کی شرح میں اضافہ کر دیا ، دینی تعلیمات سے بے گانگی نے بڑے بوڑھوں کی خدمت کو کار ثواب کے بجائے کار زحمت بنا دیا ، بقدرِ ضرورت دینی تعلیمات سے بُعد اور مغربی تعلیمات سے قرب نے مسلمان خواتین کو امور خانہ داری انجام دینے کے بجائے ، آفس ،ہوٹلوں اور اسپتالوں میں رسپیشن کی زینت بنا دیا ، دینی تعلیمات سے صرف نظر نے پڑوسیوں کے حقوق کو ادا کرنے کے بدلے ، لڑائی جھگڑے کے طور طریقے سکھلا دیے ، الغرض اسلامی زندگی کے جس موڑ پر آپ اسلامی روح کو تڑپتے ہوئے دیکھیں گے، اس کا نتیجہ دینی تعلیمات کا زندگی میں نہ ہونا پائیں گے۔ علامہ اقبال ؒ نے کہا تھا’’وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘‘ اس سے کیا وجود مراد ہے ، کیا اسلامی اور دینی تعلیمات کی روح سے یکسر خالی مغربی علوم کا غلغلہ ہے ، اسلام اس کی راہ میں حائل نہیں ہوتا ، ہاں! مگر اتنی بات ضرور ہے کہ دینی تعلیم کو فراموش کر کے ، عصری تعلیم میں بالکلیہ لگ جانا ، اسلام کو پسند نہیں ،ا سلام سے قابل اصلاح سمجھتا ہے ۔
آج دینی تعلیم کی ضرورت جتنی مردوں کو ہے ، اس سے کہیں زیادہ عورتوں کو ہے ،عورت کا قلب اگر دینی تعلیمات سے منور ہو تو اس چراغ سے کئی چراغ روشن ہو سکتے ہیں ، وہ دیندار بیوی ثابت ہو سکتی ہے ۔ وہ ہر دل عزیز بہو بن سکتی ہے اور نیک اور شفیق ساس ہو سکتی ہے ، وہ اپنے بچوں کی معلم اول ہو سکتی ہے ۔ وہ خاندانی نظام کو مربوط رکھ سکتیء ہے ۔ معاشی تنگی کو خوش حالی سے بدل کر معاشی نظام مضبوط کر سکتی ہے ، وہ شوہر کے مرجھائے اور افسردہ چہرے پر گل افشانی کر سکتی ہے ، میخانے کو مسجد اور بت خانے کو عبادت خانہ بنا سکتی ہے ، اولاد کو جذبۂ جہاد سے سر شار کرسکتی ہے ، الغرض دینی تعلیم یافتہ عورت وہ سب کچھ بہت آسانی سے کر سکتی ہے جو اسلام چاہتا ہے ، اور اگر معاملہ اس کے بر عکس ہو جائے تو منفی نتیجہ کیسا خوف ناک ہو گا ، اندازہ کرنا مشکل نہیں اور دینی تعلیم سے بے انتہا غفلت عورت کو شیطان بنا دیتا ہے ۔
لائق توجہ پہلو
ضرورت اور وقت دونوں اس امر کے متقاضی ہیں کہ تعلیم نسواں کے حوالے سے مزید بیداری پیدا کی جائے اور اس کی جانب سنجیدگی سے توجہ دی جائے ، لیکن اس سلسلے میں یہ امر بھی لائق توجہ ہے کہ عورتوں اور لڑکیوں کو تعلیم کے لیے محفوظ مقامات اور تعلیم گاہیں ہوں ، عورتوں کی تعلیم کے لیے سب سے محفوظ اور ہر طرح کی برائیوں سے پاک جگہ ، خود اس کا گھر ہے ، گھر میں ایسا انتظام اگر مشکل ہو تو غیر اقامتی اسکول اور مدرسے ہیںجہاں صرف لڑکیوں کو ہی تعلیم دی جاتی ہے اور تعلیم دینے والا تدریسی عملہ عورتوں پر ہی مشتمل ہو ، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ عالم اسلام کی معروف ہستی ، اور عالم دین حضرت مولانا و مفتی محمد تقی عثٖمانی مد ظلہ العالیٰ کی کتاب ہمارا تعلیمی نظام سے ایک اقتباس نقل کر کے مضمون ختم کیا جائے ، لکھتے ہیں:
’’ تعلیم نسواں ایک مستقل چیز ہے اور مخلوط تعلیم ایک جدا گانہ چیز ہے ، ان دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ خلط ہی بے دین اور بے حمیت یورپ زسندہ لوگ کرتے ہیںجو فروغ تعلیم نسواں کی آڑ میں مخلوط تعلیم کو فروغ دینا اور عام کرنا چاہتے ہیں ۔
اسلامی تعلیمات کی حدود میں رہ کر تعلیم نسواں کو زیادہ سے زیادہ عام کرنا چاہیے ، تاکہ نئی نسل اعلیٰ اخلاق و کردار کی مالک بن سکے ، مگر معاشی اعانت کے لیے عورتوں کی تعلیم کو ذریعہ بنانا غیر فطری بھی ہے اور غیر اسلامی بھی ، اس لیے کہ قرآن حکیم بیوی بچوں کی کفالت کا ذمہ دار مرد کو قرار دیتا ہے اور اسلامی تعلیمات کی رو سے عورت کی ذمہ داری شرعی فرائض ادا کرنے کے بعد تمام جائز اورمباح امور میں شوہر کی اطاعت کرنا، اس کی حوائج اورسامانِ راحت و آسائش کو مہیا کرنا ہے، تاکہ بچے اور شوہر تفریح کے لے گھر سے باہر جانے کی ضرورت ہی محسوس نہ کریں ۔‘‘
آگے لکھتے ہیں’’ لڑکیوں کا نصاب تعلیم، نظام تعلیم اور معیار تعلیم مذکورہ بالامقاصد کے تحت مرتب و مدون اور مردوں سے بالکل الگ اور جدا گانہ ہونا چاہیے ۔ اگر تعلیم نسواں سے اس کے صحیح فوائد حاصل کرنے ہیں تو مخلوط تعلیم کو ختم کرنا قطعی لازم ہے ، اس لیے کہ مخلوط تعلیم تو اسلامی روح کے بھی قطعی منافی ہے اور ذہنی و فکری آسودگی اور اخلاقی پاکیزگی کے لیے بھی قاتل ہے ، اس کی اجازت کسی صورت میں بھی نہیں دی جا سکتی ۔ ( ہمارا تعلیمی نظام،ص،23)