محمد سمیع
الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا اور اشتہاری کمپنیوں میں عریانی و فحاشی کا مقابلہ ایک عرصے سے جاری ہے اور اب معاملہ مقابلۂ حسن تک جاپہنچا ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ دین کا درد رکھنے والے افراد اور جماعتیں ایک عرصے سے عریانی و فحاشی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتی چلی آرہی ہیں لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان کے متعلقہ اداروں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے سورہ حج میں حکمرانوں کے لیے جو فرائض بیان کیے ہیں ان میں ایک امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی ہے۔ اس فریضے کی اہمیت اس بات سے سمجھ میں آتی ہے کہ قرآن میں امت مسلمہ کے برپا کرنے کا مقصد یہی بتایا گیا ہے۔ اگر ساری امت اس فریضے کی ادائیگی میں غفلت برتے جیسا کہ آج کل امت کا حال ہے تو اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ تم میں سے ایک گروہ تو ایسا ہونا ہی چاہیے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے۔ ہمارے ملک میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے کوئی وزارت ہے ہی نہیں۔ ہاں البتہ ایک وزارت مذہبی امور ضرور ہے لیکن چوں کہ وہ وزارت دینی امور نہیں لہٰذا یہ ایشو اس کی توجہ حاصل کرنے سے قاصر ہے۔ ہمارے ہاں اس مقصد کے لیے ایک ادارہ پیمرا الیکٹرونک میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے موجود ہے جس کے چیئرمین نے ایک موقع پر عدالت میں یہ اعتراف کیا تھا کہ ٹی وی چینلز پر ایسے ڈرامے وغیرہ دکھائے جاتے ہیں جو خاندان کے تمام افراد کے لیے اکٹھے بیٹھ کر دیکھنا ممکن نہیں۔ لیکن انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ پیمرا کے ایکشن کے خلاف عدالت سے حکم امتناع لے لیا جاتا ہے۔ ملک کی اعلیٰ ترین
عدالت میں ایک رٹ عریانی و فحاشی کے خلاف موجود ہے جس کی سماعت کی نوبت مئی 2016 کے بعد سے اب تک نہیں آئی۔ عدالت نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ عریانی و فحاشی کی تعریف کا تعین کیا جائے۔ عدالت بھی کیا کرے۔ یہاں جو قانون نافذ ہے اس کے تقاضے کو تو پورا کرنا ہوتا ہے۔ یہ کوئی شرعی عدالت تو ہے نہیں جہاں اگر کوئی مسئلہ درپیش ہو تو قرآن وسنت سے رجوع کیا جائے۔
بابائے قوم نے چاہا تھا کہ پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنایا جائے لیکن المیہ یہ ہے کہ جس مسلم لیگ کی تحریک کے نتیجے میں ملک وجود میں آیا تھا اس کے تو حصے بخرے ہوچکے ہیں البتہ اسی کے نام پر جو جماعت اس وقت بر سر اقتدار ہے اس کے رہنما نے فرمایا تھا کہ وہ پاکستان کو ایک لبرل ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ اسی کے نتائج ہیں جو آج سامنے آرہے ہیں۔ اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق ہم ٹی وی چینل نے عالمی مقابلۂ حسن کے طرز پر مس پاکستان 2017 کے انتخاب کے لیے باقاعدہ پروگرام شروع کردیے ہیں۔ اس ضمن میں پاکستانی لڑکیوں کو مقابلۂ حسن میں شرکت کے لیے دبئی لے جایا جارہا ہے۔ اس پروگرام کو ویٹ کریم بنانے والی کمپنی اسپانسر کررہی ہے۔ ہم ٹی وی سے یہ پروگرام ٹیلی کاسٹ کرنے کے لیے ملک بھر کے مختلف شہروں میں فیشن شوز بھی منعقد کیے جاتے ہیں۔ چینل کی انتظامیہ نے کالجوں اور یونیوسٹیوں کی طالبات کے موبائل نمبر لے کر انہیں ایس ایم ایس کیے ہیں۔ ایسا ہی ایک مسیج سینئر قانون داں طارق اسدایڈوکیٹ کی صاحب زادی کو بھی ملا ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ آپ مس ویٹ پروگرام میں دلچسپی لیں اور اگر ممکن ہو تو اس میں حصہ بھی لیں۔ اس سے آپ میں اعتماد آئے گا اور آپ معاشرے میں مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ آگے بڑھ سکیں گی۔ مردوں کے شانہ بشانہ چلنے والی خواتین کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اس کا تازہ واقعہ رکن قومی اسمبلی عائشہ گلالئی کا ہے۔ اس کے ساتھ ہی عائشہ احد کا معاملہ بھی اور کہتے ہیں کہ اور بھی واقعات پائپ لائن میں موجود ہیں جو سامنے آنے والے ہیں۔ محترم طارق اسد ایڈوکیٹ نے اس سلسلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں رٹ دائر کردی ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ بعض طلبہ تنظیمیں بھی بے حیائی اور فحاشی پھیلانے والے اس پروگرام کو بند کرانے کے لیے پرامن احتجاج اور ممکنہ طور پر لانگ مارچ کا پروگرام بنایا ہے۔گویا کہ
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں
ملک کے نئے وزیر اعظم کے چہرے پر سنت کی بہار موجود ہے۔ کاش وہ اس عظیم سنت بھی عمل کرتے جسے سنت اقامت کہا جاتا ہے اور جس کے نتیجے میں مدینے کی ریاست قائم ہوئی تھی۔ ان کی وزارت چند مہینے کی ہے اور وہ بظاہر کسی طویل مدت کی خواہش بھی نہیں رکھتے۔ ان کے لیے بہترین موقع ہے کہ وہ ملک میں اسلامی نظام کے قیام کے لیے اپنا کردار ادا کرجائیں تاکہ پاکستان کی صورت میں جو مدینے کی طرز کی ریاست کی خواہش ہمارے اسلاف رکھتے تھے، اس کی تعبیر مل جائے۔ مذہبی سیاسی جماعتیں تو ایسا کرنے سے قاصر ہیں کیوں کہ ان کے لیے اس وقت تو کیا آئندہ بھی کبھی دو تہائی اکثریت والی حکومت حاصل ہونے کے امکانات نظر نہیں آتے۔ ویسے بھی جب انہیں صوبہ سرحد میں دو تہائی اکثریت والی حکومت ملی تھی تو اس کا کوئی فائدہ اسلام کو نہیں پہنچا یہاں تک کہ وہ ایک حسبہ بل بھی منظور نہیں کروا سکے۔ ان کے قائدین تو اللہ تعالیٰ کے حضور جواب طلبی پر یہ عذر پیش کرسکیں گے۔ ہمارے موجودہ وزیر اعظم تو یہ عذر بھی پیش نہ کرپائیں گے۔
میری گزارش مذہبی سیاسی قائدین سے یہ ہے کہ وہ کم از کم اس مقابلۂ حسن کے مسئلے کو اسمبلی فلور پر تو لاہی سکتے ہیں۔ لہٰذا وہ اس کے لیے اقدام کریں۔ علمائے کرام سے میری مودبانہ گزارش ماضی میں بھی رہی ہے اور اب بھی ہے کہ وہ قومی معاملات پر نظر رکھیں، لاتعلقی کا رویہ ترک کریں۔ ان کی طرف سے بھی اس ضمن میں اقدامات کیے جانے چاہئیں تاکہ ہم ٹی وی والوں کا یہ مذموم مقصد پورا نہ ہوسکے بلکہ حکومت پر دباؤ ڈال کر وہ اس ٹی وی چینل ہی کو بند کروانے کی کوشش کریں تاکہ آئندہ اس قبیل کے لوگوں کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔ سیاست میں گالی گلوچ، الزام تراشی، جھوٹ اور مکر وفریب کا جو حال ہے، اس پر علماء کی خاموشی طبیعت پر سخت گراں گزرتی ہے۔ ان پر تو فریضۂ نہی عن المنکر بدرجۂ اولیٰ فرض ہے۔ توقع ہے کہ وہ اس طرف توجہ فرمائیں گے۔