نظریاتی آدمی؟ 

251

zc_MFمیاں نواز شریف عدالتی فیصلے کے نتیجے میں نا اہلی اور وزارت عظمیٰ کے منصب سے معزولی کے بعد سڑک پر نکلے ہیں تو عدالتی فیصلہ تسلیم کرنے کے اقرار کے باوجود سینے پر ہاتھ مار مار کر عدالت سے پوچھ رہے ہیں کہ بتاؤ میرا قصور کیا ہے ۔کیا میں نے کرپشن کی ہے ؟کیا میں نے سرکاری سودوں میں کک بیکس وصول کی ہیں کیا میں نے فراڈ کیا ہے۔ وہ ہاتھ لہرا لہرا کر عوام کو اکسارہے ہیں کہ وہ عدالت کافیصلہ مسترد کردیں۔ عوام انہیں گھر بھیجنے کے لیے سڑکوں پر آئے ہیں لیکن وہ عوام سے پوچھ رہے ہیں کہ انہیں گھر کیوں بھیجا جارہا ہے۔ وہ عوام سے کہہ رہے ہیں کہ آپ ہمیں ووٹ دیتے ہیں۔ وزارت عظمیٰ کے منصب پر بٹھاتے ہیں حکمرانی کا حق دیتے ہیں لیکن پانچ افراد ووٹ کی پرچی پھاڑ کر ہمارے ہاتھ میں پکڑا دیتے ہیں اور ہمیں گھر کا راستہ بتادیتے ہیں۔ یہ کروڑوں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے وزیراعظم کی توہین ہے۔ میاں نواز شریف کا کہنا ہے کہ وہ اب یہ توہین برداشت نہیں کریں گے اور موجودہ نظام کو بدل کررہیں گے۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ اس جدوجہد میں ان کا ساتھ دیں۔ اس سے قبل انہوں نے صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اب مکمل طور پر ایک نظریاتی آدمی بن گئے ہیں۔ صحافی تو بال کی کھال اتارنے میں مہارت رکھتے ہیں لیکن یہ عجیب اتفاق ہے کہ کسی صحافی نے ان سے یہ نہیں پوچھا کہ حضرت آپ کا نظریہ کیا ہے، ممکن ہے کوئی سر پھرا ان سے یہ پوچھ بیٹھا تو میاں صاحب اس سے فوراً یہ سوال جڑ دیتے کہ آپ بتائیں میرا نظریہ کیا ہوسکتا ہے کیونکہ میاں صاحب کو جواب دینے کے بجائے سوال کرنے کی عادت ہے۔ وہ اپنی نا اہلی سے قبل تفتیش کے دوران جے آئی ٹی میں پیش ہوئے تو وہاں بھی وہ سوالوں کے جواب دینے کے بجائے تفتیشی ٹیم سے سوالات کرتے رہے اور کسی ایک سوال کا بھی انہوں نے ڈھنگ سے جواب نہ دیا۔
یہ بات کہ میاں نواز شریف کا نظریہ کیا ہے اور وہ کس اعتبار سے ایک نظریاتی آدمی ہیں۔ ایک معمے سے کم نہیں ہے۔ اب یہ معما ان کے ہمدرد لکھاری حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایک دانشور کالم نگارنے میاں صاحب کے اسلام آباد سے لاہور تک کے سفر کو ایک نظریاتی سفر سے تشبیہ دی ہے اور اپنے کالم کا عنوان باندھا ہے ’’نواز شریف کا نظریاتی سفر‘‘ انہوں نے میاں صاحب سے پوچھے بغیر ان کے اسلام آباد تا لاہور سفر کے بارے میں یہ رائے دی ہے کہ ’’نواز شریف قوم کو یہ بتانے کے لیے نکلے ہیں کہ اس ملک کا اصل مسئلہ اداروں میں تصادم ہے اسی سے عدم استحکام پیدا ہوتا ہے اور عدم استحکام کرپشن جیسی برائیوں کی جڑ ہے۔ اداروں میں تصادم کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ آئین اور پارلیمانی جمہوریت کی روح کے مطابق سول بالادستی کو قبول کیا جائے‘‘ ایک اور لکھاری نے بھی اپنے خیالات کی جگالی کی ہے اور ایک ٹاک شو میں میزبان کے اس سوال کے جواب میں کہ میاں صاحب کا نظریہ کیا ہے میزبان کو بتایا ہے کہ ’’ان کے خیال میں میاں صاحب کا نظریہ یہ ہے کہ ادارے اپنی اپنی آئینی حدود میں کام کریں یہ آئین پاکستان کا تقاضا بھی ہے جس کے تحفظ اور جس پر عملدرآمد کا حلف اٹھاکر وزیراعظم پاکستان اور ان کی کابینہ اعلیٰ عدلیہ کے سربراہان اور ان کے برادر جج اور عسکری اداروں کی قیادت اپنی ذمے داریاں سنبھالتی ہے‘‘ دونوں معزز لکھاریوں کی رائے اپنی جگہ لیکن میاں صاحب نے اسلام آباد تا لاہور اپنے ’’نظریاتی سفر‘‘ میں للکار للکار کرکہا ہے کہ وہ اداروں کی آئینی حدود کو نہیں مانتے۔ یہ اقرار کرنے کے باوجود کہ انہوں نے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو تسلیم کرلیا ہے۔ انہوں نے عوام کو بار بار اکسایا ہے کہ وہ عدالتی فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کردیں۔ انہوں نے آئین اور پارلیمانی جمہوریت کی بنیاد پر استوار موجودہ نظام کو جڑ سے اکھیڑنے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے آئین کو بدلنے اور انقلاب برپا کرنے کا بھی دعویٰ کیا ہے ۔ اگر یہ باتیں غلط ہیں تو ان کی تقریروں کے ریکارڈ پر ایک بار پھر نظر ڈال لی جائے۔ وہ ماضی میں بھی اداروں کے درمیان تصادم کی پالیسی پر کاربند رہے ہیں۔
ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍمیاں نواز شریف کا نظریہ کیا ہے؟ آئیے ہم بھی یہ معما حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں میاں صاحب کاسیاسی ریکارڈ بتاتا ہے کہ وہ شاہی مزاج لے کر پیدا ہوئے ہیں اپنے کام میں کسی کی مداخلت گوارا نہیں کرتے۔ خواہ وہ کوئی ادارہ ہی کیوں نہ ہو اب بادشاہت نہیں پارلیمانی جمہوریت کا زمانہ ہے۔ عوام اپنے ووٹوں سے پارلیمنٹ کا چناؤ کرتے ہیں
پھر یہ پارلیمنٹ اکثریتی پارٹی کے امیدوار کو وزیراعظم منتخب کرتی ہے جو پارلیمنٹ کے سامنے ایسے عمل کے لیے جوابدہ ہوتا ہے۔ وزیراعظم ملک کے چیف ایگزیکٹیو کی حیثیت سے کوئی قدم پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیرنہیں اٹھا سکتا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ میاں نواز شریف وزیراعظم منتخب ہوتے ہی پارلیمنٹ کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھ لیتے ہیں۔ وہ نہ پارلیمنٹ میں آنا گوارا کرتے ہیں نہ اس کے سامنے اپنی کارکردگی پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ فوجی حکمران تو یقیناً اپنی امریت کے لیے بدنام ہیں لیکن میاں صاحب ایک منتخب سول حکمران ہونے کے باوجود اپنے تینوں ادوار حکومت میں کسی فوجی آمر سے کم نہیں رہے۔ وہ صرف اپنی اور اپنے خاندان کی بادشاہت کے قائل ہیں باقی ساری باتیں ان کے لیے فضولیات کا درجہ رکھتی ہیں۔ ہم ان کے پچھلے دونوں ادوار حکومت کو چھوڑ کر حالیہ ساڑھے چار سالہ دور حکومت کی بات کرتے ہیں۔ انہوں نے اس عرصہ کے دوران سو سے زیادہ غیر ملکی دورے کیے ایک زمانے میں ان کے بارے میں یہ مشہور ہوگیا تھا کہ وہ رہتے ہی باہر ہیں اور پاکستان صرف اس لیے آتے ہیں کہ اپنی حکمرانی کنفرم کرسکیں۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں آنے کی شاید دس بار بھی زحمت نہیں کی۔ میاں صاحب نے پارلیمنٹ سے نہ کبھی ان دوروں کی اجازت لی اور نہ کبھی ان دوروں کی رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی زحمت کی۔ یہ دورے قوم کو کتنے میں پڑے اور ان سے کیا حاصل ہوا؟ یہ ابھی تک صیغہ راز میں ہے۔ بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے وہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے دہشت گردی سمیت تمام حربے آزماتا رہا ہے۔ پاکستانی حکمرانوں کو پوری مشاورت کے ساتھ اس کی جانب قدم بڑھانا چاہیے لیکن میاں نواز شریف کا طرز عمل قومی مفاد کے بالکل برعکس رہا وہ پارلیمنٹ سے مشاورت کیے بغیر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں جا پہنچے اور اس موقع پر دہلی میں ملاقات کے منتظر کشمیری قائدین کو نظر انداز کرکے اپنے کاروباری دوستوں سے ملنے چلے گئے
سے ملنے چلے گئے۔ ان کا یہ رویہ انتہائی نا مناسب اور قومی وقار کے منافی تھا لیکن پارلیمنٹ ان کا موازنہ نہ کرسکی۔ میاں صاحب گزشتہ سال بیمار ہوئے اس بیماری کے دوران وہ کم و بیش چار ماہ تک ملک سے غیر حاضر رہے لیکن انہوں نے پارلیمنٹ سے رخصت لینا اور اسے اپنی بیماری کے بارے میں آگاہ کرنا ضروری نہ سمجھا اور سکھا شاہی نظام کے تحت ملک چلتا رہا۔ انہوں نے پارلیمانی جمہوریت اور اس کے تحت چلنے والے نظام کو اپنے دور حکومت میں جتنا بے توقیر کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے اپنی بنائی کابینہ سے بھی کبھی مشورہ نہیں کیا۔ ان کے وزیر گزشتہ چار ساڑھے چار سال کے دوران ان سے ملاقات کے لیے ترستے رہے۔ انہوں نے جمہوریت کی آڑ میں بادشاہت کا نظام قائم کیے رکھا لیکن اب ان کی نا اہلی سے ان کے بہت سے خواب ادھورے رہ گئے ہیں جنہیں وہ سڑک پر آکر پورا کرنا چاہتے ہیں۔ شاید انہوں نے سچ کہا ہے کہ وہ ’’نظریاتی آدمی‘‘ بن گئے ہیں۔