سعودی حکومت کے حج انتظامات و دعوت اتحاد

176

حشمت اللہ صدیقی
فریضہ حج اسلام میں وحدت اُمت کے عظیم پیغام کا مظہر ہے اس کے عملی اظہار کے لیے جو سرزمین مرکز بنائی گئی وہ بھی دُنیا کے تمام خطوں میں تقدس و فضیلت رکھتی ہے، اسلام کا قبلہ و کعبہ اس عظیم سرزمین کے تقدس کی گواہی دیتے ہیں۔ قابل مبارک باد ہیں وہ لاکھوں افراد جو دوران حج اس سرزمین کے مقدس مقامات پر مناسک حج کی ادائیگی کر کے اپنے ایمان و عقیدہ کی تجدید کرتے ہیں اسلام کے اس مرکز کی سرپرستی و خدمت کے لیے اللہ تعالیٰ نے آل سعود کو شرف بخشا ہے جو وہ ہر سال عازمین حج کے لیے انتہائی عجز و انکساری سے یہ خدمت انجام دیتے ہیں۔ خادم حرمین شریفین اور ان کے عمال و وزرا ضیوف الرحمان یعنی اللہ کے مہمانوں کی خدمت اور انہیں مناسک حج کے ہر لمحہ سہولتیں فراہم کرنے میں صرف کرتے ہیں۔ امسال بھی خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی خصوصی رہنمائی و سربراہی میں سعودی حکومت نے حجاج کرام کے تحفظ و سہولتوں کی فراہمی کے لیے بعض جدید ترین و انقلابی اقدامات کیے جس کے لیے خادم حرمین شریفین نے حکومتی اداروں کو خصوصی احکامات دیے جن کی روشنی میں یہ ادارے ہمہ تن فعال رہے اور انتظامات کی مد میں حکومت کی جانب سے فراخدلی سے فنڈ مختص کیے گئے۔ تمام مناسک کے مقامات پر ائر کنڈیشن لیے، ٹھنڈا پانی، ٹرانسپورٹ، سیکورٹی و دیگر سہولیات کے لیے جدید انتظامات کیے گئے۔ مسجد نمرہ، مسجد الحرام، رمی جمعرات، منیٰ، عرفات، قرونقہ پر ازدحام کو کم کرنے کے لیے خصوصی اقدامات کیے گئے اس مقصد کے لیے شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی نگرانی رہنمائی میں ترتیب دی گئی۔ انتظامات حج کے ساتھ ہی چوں کہ فریضہ حج کی اصل روح وحدت اُمت کا فروغ ہے جو ہمیں ہر قسم کی فرقہ واریت، لسانی علاقائی و جغرافیائی اور نسلی تعصبات کو بالائے طاق رکھ کر اسلام کے عظیم پیغام امن و اخوت و رواداری کا درس دیتا ہے جس کی آج اشد ضرورت ہے۔ چناں چہ اسی مقصد کے حصول کے لیے بھی سعودی حکومت کی خدمات ہمیشہ سے سرفہرست رہی ہیں۔ 1974ء میں لاہور میں ہونے والی اسلامی ممالک کی کانفرنس میں اتحاد عالم اسلامی کے لیے شاہ فیصل نے تاریخی کردار ادا کیا تھا، اسی جذبہ کی پیروی کرتے ہوئے موجودہ شاہ نے بھی حج کے اس عالمی اجتماع کے موقعے پر مسلم ممالک کے اتحاد اور ان کو درپیش مسائل پر غور و فکر کے لیے انٹرنیشنل میڈیا گروپ (جو 58 اسلامی ممالک کے ممتاز مدیرانِ مملکت و سینئر صحافیوں پر مشتمل تھا) اور دُنیا بھر کے 65 اسلامی ملکوں کے وفود، جید علما کرام، مذہبی اسکالر و ممتاز شخصیات کو مدعو کیا جہاں انہیں حالیہ جدید طرز پر اُٹھائے گئے حج انتظامات پر سعودی حکومت کی کارکردگی کو براہِ راست مشاہدہ کرنے کا موقع ملا اور ایک دوسرے سے باہمی گفت و شنید و تبادلہ خیال کے ذریعے مسلم ممالک کو درپیش خطرات کے ممکنہ حل کے لیے متفقہ تجاویز مرتب کرنے کا ماحول پیدا ہوا۔ ان وفود و میڈیا گروپ کو سعودی پالیسی برائے امن و حج انتظامات و اتحاد اُمت کے لیے سعودی کوششوں سے آگاہ کرنے کے لیے شہزادہ بندربن سلمان خصوصی خطاب کیا۔ انہوں نے اتحاد امت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے علما، دینی اسکالر و ممتاز شخصیات سے اپیل کی کہ وہ امت کی رہنمائی و اتحاد کے لیے واضح لائحہ عمل مرتب کریں ہم عمل کریں گے۔ انہوں نے نوجوانوں میں انتہا پسندی کے فروغ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ علمائے دین کا فریضہ ہے کہ وہ دہشت گردی و فرقہ وارانہ تعصبات سے نوجوانوں کو دُور رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ حج کا اجتماع اُمت کے اجتماعی، اخلاقی و فکری و معاشی حالات کو بہتر بنانے اور مسائل کو سمجھنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ واضح ہو کہ سلمان بن عبدالعزیز نے G-20 ممالک کے گزشتہ اجلاس میں اس مقصد کے لیے اسلامی ممالک کو درپیش حالات و مسائل کے لیے ان کے مابین ایک ’’بین الاقوامی سینٹر‘‘ کے قیام کی تجویز دی تھی جس کے لیے انہوں نے 11 کروڑ کا فنڈ بھی عطیہ کیا تھا جس سے ان کی اتحاد اسلامی کے لیے خصوصی دلچسپی ظاہر ہوتی ہے۔ حالات و واقعات جو مسلم ممالک میں پیش آرہے ہیں اور جس طرح ان ممالک میں دہشت گردی، فرقہ واریت، افتراق و انتشار و فتنہ فساد کو فروغ دیا جارہا ہے، وہ ایک گہری سازش ہے جس کا آج پاکستان سعودی عرب سمیت دیگر اسلامی ممالک کو سامنا ہے، اس کا تقاضا ہے کہ وسیع تر اتحاد قائم کیا جائے اور تمام اسلامی ممالک ایک متفقہ لائحہ عمل طے کریں جس کی تجویز حالیہ حج اجتماع میں خادم حرمین شریفین کی جانب سے دی گئی ہے۔ اس کے لیے سعودی عرب، پاکستان اور ترکی اہم و قائدانہ کردار ادا کرسکتے ہیں۔ سعودی عرب و پاکستان اسلامی دنیا کے اہم ممالک ہیں یہ ہماری آرزوؤں و اُمیدوں کے مرکز ہیں جو اسلام کے مضبوط مراکز و قلعے ہیں۔ ان کے خلاف ہونے والی سازشیں دراصل اسلام و مسلمانوں کے خلاف جاری ایجنڈا ہے جس کے تحت ان ممالک میں فتنہ و فساد و افتراق و انتشار کے ذریعے انہیں عدم استحکام کی جانب گامزن کرنا اور مسلسل خوف و دباؤ میں رکھنا ہے، نائن الیون کے واقعے سے متعلق مقدمے کا بل پیش کرنے کی اطلاعات بھی ہیں جس کا نشانہ سعودی عرب کو بنانا ہے، یہ ایک نئی سازش کا آغاز ہے ہمیں اس نازک موقعے پر سعودی عرب جو اسلام کا مرکز اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی عقیدت کا محور ہے اس کی سلامتی کے لیے متحد ہو جانا چاہیے اس کی سلامتی تمام اسلامی ممالک کی سلامتی ہے، ہر لمحہ ہوشیار و تیار رہنے کی ضرورت ہے۔ دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حکومت سعودی عرب، پاکستان و دیگر ممالک کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور انہیں بیرونی و اندرونی دشمنوں کی سازشوں سے محفوظ رکھے (آمین)۔