افغان طالبان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو کھلا خط لکھا ہے جس میں انتباہ کیا گیا ہے کہ ٹرمپ مزید فوج بھیجنے کے بجائے افغانستان سے واپسی کا انتظام کریں کیونکہ ماضی کے تجربات کی روشنی میں مزید کمک بھیجنے کا نتیجہ امریکی فوج اور اس کی اقتصادی طاقت کو نقصان کے سوا اور کچھ نہیں نکلے گا۔ گزشتہ جولائی میں برسلز میں جب نیٹو کا اجلاس ہوا تو اس میں افغانستان میں فوجیوں کی تعداد بڑھانے کے بارے میں مشاورت کی گئی اور بالآخر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منظوری دے دی۔ اس اجلاس میں نیٹو کے سیکرٹری جنرل اسٹولٹن برگ نے کہاتھا کہ نیٹو کے جو اہلکار افغانستان جائیں گے وہ لڑائی میں حصہ نہیں لیں گے۔ طالبان کے خط میں افغان حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ عین ممکن ہے کہ امریکا کی جانب سے بٹھائی گئی کٹھ پتلی انتظامیہ آپ کو سب اچھا ہے کی رپورٹ دے رہی ہو کیونکہ اسے آپ کے مفادات کی پروا ہے نہ اپنی قوم کی۔ واضح رہے کہ 2014ء کے بعد سے ملک کا کنٹرول عملی طور پر افغان فوج کے حوالے کردیا گیا ہے۔ خط میں لکھا گیا ہے کہ امریکی فوج ہمیں کبھی بھی شکست نہیں دے سکی۔ امریکا کے حمایتیوں کے لیے شاید یہ قبول کرنا مشکل ہو لیکن افغانستان میں امریکا کی جو حالت ہے اس کو سامنے رکھا جائے تو اس کا ایک ایک حرف سچائی پر مبنی ہے۔ 2011ء میں افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد ایک لاکھ سے متجاوز تھی جو بتدریج کم ہوتی گئی اور اب اس کی تعداد ساڑھے 13 ہزار کے قریب ہے۔ افغانستان کے صوبوں پر طالبان قبضہ کرتے جارہے ہیں اور امریکی فوج محض تماشائی بنی رہتی ہے۔ ان حالات میں یہ خط جہاں ایک نصیحت ہے وہیں کھلا انتباہ بھی ہے اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس فیصلے کا رد عمل طالبان کی طرف سے جنگی کارروائیوں میں شدت کی صورت میں بھی آسکتا ہے۔