آخر کار نا اہل قرار دیے گئے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر نظر ثانی کی تین درخواستیں دائر کر دی ہیں ۔ا نہوں نے 5رکنی بینچ کے فیصلے پر حُکم امتناع بھی طلب کیا ہے اور کہا ہے کہ نظر ثانی کی اپیل پر فیصلہ ہونے تک عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر عمل درآمد روکا جائے ۔ یعنی ریورس گیئر لگا کر اپیل پر فیصلہ ہونے تک انہیں وزیر اعظم کے منصب پر بحال رکھا جائے ۔ نظر ثانی کی اپیل کرنا ان کا قانونی حق ہے لیکن میاں نواز شریف اور ان کے حواری28جولائی کو فیصلہ سامنے آنے سے پہلے تک کے اپنے بیانات اور جلسوں میں کی گئی تقاریر کا ریکارڈ نکلوا کر ضرور دیکھ لیں ۔ا نہوں نے ایک بار نہیں کئی بار کہا کہ جو بھی فیصلہ آیا وہ اسے قبول کریں گے اور اپیل میں نہیں جائیں گے ۔ اب وہ اپنے دعوؤں سے بھی پیچھے ہٹ گئے ہیں اور تضاد بیانی کی ایک اور مثال پیش کر دی ہے ۔ فیصلہ قبول کرنا تو ایک طرف وہ تو اسے اپنے خلاف عدلیہ کی سازش قرار دے رہے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ فیصلہ تو پہلے سے تیار تھا اور ہر صورت میں یہی فیصلہ ہوتا ۔ انہوں نے اسلام آباد سے لاہور تک کئی دن پر مشتمل ایک طویل ریلی نکالی اور اس میں مختلف مقامات پر عوام کا اجتماع دیکھ کر اس گمان میں مبتلا ہو گئے کہ وہ ایک بڑے انقلابی رہنما بن گئے ہیں اور عوام ان کے ساتھ ہیں ۔ عملاً تو اب بھی ان کی پارٹی اور ان کے لوگوں کی حکومت ہے تو انقلاب برپا کرنے میں کیا دیر ہے ۔ ان کے خواجگان میں سے ایک محترم خواجہ سعد رفیق تو کہتے ہیں کہ اب بھی سب کچھ نواز شریف کے ہاتھ میں ہے ۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر جناب ایاز صادق پارٹی سے وفا داری نباہتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا ہے کہ ان کے وزیر اعظم تو اب بھی میاں نواز شریف ہیں ۔ یہ بھی توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے ۔ لیکن خود میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے 28جولائی کے بعد کئی بار توہین عدالت کا ارتکاب کیا جا چکا ہے اور اس حوالے سے مقدمات شروع ہوئے تو طویل عرصہ لگ جائے گا ۔ نواز شریف کی طرف سے دائر کردہ درخواست میں یہ بھی کہا گیاہے کہ پاناما کیس میں عمران خان ، سراج الحق اور شیخ رشید کی درخواستوں پر الگ الگ نظر ثانی کی جائے اور فیصلے تک میاں صاحب ہی کو وزیر اعظم رہنے دیا جائے ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان چند دنوں ہی میں وہ انقلاب برپا کر ڈالیں جو وہ ساڑھے چار سال تک اپنی بغل میں لیے پھرتے رہے ۔ اگر واقعی ان کے پاس کوئی انقلابی منصوبہ ہے تو اپنے نامزد کردہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے ذریعے فوری طور پر اس پر عمل شروع کروا دیں ابھی مسلم لیگ ن کے پاس تقریباً9ماہ ہیں ۔ یہ کام تیسری باروزیر اعظم بننے پر نہیں تو شاید اب ہو جائے ۔ میاں نواز شریف ہر ایک سے پوچھتے پھرتے ہیں کہ ان کا قصور کیا ہے ۔ ہمارے خیال میں بھی دبئی کی کمپنی میں ملازمت اور اپنے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کا الزام ہلکا ہے جس پر5رکنی بینچ نے ان کو نا اہل قرار دیا ۔ اسی کو بنیاد بنا کر نواز شریف ہنگامہ برپا کیے ہوئے ہیں ۔ لیکن یہ سوالات تو اب بھی جواب طلب ہیں کہ لندن کے مہنگے ترین علاقے میں جو فلیٹس خریدے گئے ، ان کی رقم کہاں سے آئی ہے ، حدیبیہ پیپر ملز اور اسٹیل مل کی اصل کہانی کیا ہے ۔ ان کی تفتیش نیب کے سپرد کر دی گئی ہے او رابھی کہانی ختم نہیں ہوئی ۔ میاں صاحب کا موقف ہے کہ نیب ریفرنسز کا حکم اختیارات سے تجاوز ہے اور نا اہل قرار دینے کے لیے الیکشن کمیشن کا اختیار استعمال کیا گیا ۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ لیکن بطور وزیر اعظم پاکستان محض دبئی کے اقامے کے لیے وہاں ملازمت کرنا کیا باعث شرم نہیں ہے؟ آپ نے تنخواہ لی یا نہیں لی لیکن بطور ملازم دبئی میں کام تو کیا جب کہ آپ کے پاس پاکستان کی وزارت عظمیٰ تھی اور اس حوالے سے مخصوص پاسپورٹ بھی تھا جس کے ہوتے ہوئے ویزا کی ضرورت نہیں تھی ۔ بات محض اتنی سی نہیں ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دبئی میں کسی آف شور کمنی کا اہتمام منی لانڈرنگ کے لیے کیا جاتا ہے ۔ کسی ملک سے جب رقم دبئی یا کسی اور آف شور کمپنی کو بھیجی جاتی ہے تو وہاں کسی اور ملک کے بینک کو منتقل ہو جاتی ہے ۔ اس بینک سے معلوم کیا جائے تو کہا جاتا ہے کہ یہ رقم دبئی سے آئی ہے ، آپ کا کوئی تعلق نہیں۔