انعم مظفر
۲۸ جولائی ۲۰۱۷ کو جب میاں نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا اسی روز سے وہ عوا سے یہ پوچھتے پھر رہے ہیں کہ بھلا میرا قصور تو بتاؤ کہ کیوں مجھے رسوا کر کے حکومت سے نکالا گیا، اس موقعے پر ایک لطیفہ یاد آگیا: ایک چور کو جج نے سزا سنائی تو اس نے احتجاج کیا کہ میں نے چوری نہیں کی اس پر جج نے کہا تم کو چار افراد نے چوری کرتے ہوئے دیکھا ہے اس پر چور نے برجستہ جواب دیا جناب میں ایسے چالیس آدمی پیش کر سکتا ہوں جنہوں نے مجھے چوری کرتے نہیں دیکھا۔میاں صاحب اب بھی بصد ہیں کہ ان کو چوری کے الزام میں کیوں نکالا گیا حالاں کہ یہ بات مکرر ارشاد کی متقاضی تو نہیں کہ عوام کو عدالت عظمیٰ کی کارروائیاں اور نا اہلی کی وجوہ ازبر ہوچکی ہیں مگر پھر بھی کہے دیتے ہیں تاکہ ایک بار اور یاد دہانی ہوجائے کہ جس جرم کی پاداش میں آپ کو نوکری سے برخواست کیا گیا ہے وہ صرف یہ ہے کہ آ پ اپنے بیٹے کے نوکر تھے اور آپ نے انتخابات کے وقت یہ بتانے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ آپ خیر سے اپنے بیٹے کے نوکر بھی ہیں اور مبلغ دس ہزار درہم ماہانہ تنخواہ بھی پاتے ہیں۔ اب آپ جگہ جگہ یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ ہاں میں اپنے ہی لخت جگر کانوکر تھا۔ اس موقعے پر ایک واقعہ یاد آ گیا۔ غالباً ایوب خان کا دور تھا کہ ایک خاتون نیوز ریڈر کوئی غلط بات گئیں اگر وہ اس غلطی کو نظر انداز کرتے ہوئے آگے نکل جاتیں تو بات آئی گئی ہو جاتی اور لوگ اپنی سماعت کی کمزوری سمجھ کر بھول جاتے مگر انہوں نے اس بات کو تین بار یہ کہہ کر دہرایا کہ معاف کیجیے گا منہ سے یہ غلط لفظ نکل گیا اب جس نے نہیں بھی سنا تھا اس نے اچھی طرح سن لیا کہ کون سا غلط لفظ منہ سے نکل گیا تھا۔ یہی کام میاں صاحب کر رہے ہیں اور پوری دنیا کے سامنے یہی گردان کرتے پھر رہے ہیں کہ مجھے ذلیل و رسوا کر کے نکالا گیا اگر میاں صاحب خاموشی سی رائے ونڈ کو سدھار جاتے تو شاید کچھ دنوں بعد لوگ بھول جاتے اور اپنے قائد کو بے قصور سمجھنے لگتے مگر وہ تو خود چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ مجھے رسوا کر کے نکالا گیا۔
سیکولر سیاست دانوں کا طرۂ امتیاز بھی یہی ہے کہ ہر سیدھی بات کو ٹیڑھا کر دیتے ہیں جیسے پیپلز پارٹی اپنے رہنماؤں کا جنہیں کرپشن کرنے پر سزائیں ہوتی ہیں اور وہ جیل چلے جاتے ہیں تو پی پی کہتی ہے کہ یہ جمہوریت کے لیے قربانی دے رہے ہیں۔ حالاں کہ وہ لوٹ مار غبن اور بدعنوانی کے جرائم کی وجہ سے جیل بھیجے گئے تھے نہ کہ جمہوریت کو بچانے کی سزا کے طور پر۔ اسی طرح دیگر سیکولر جماعتوں کے احوال بھی ایسے ہی ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ میاں صاحب کو وزارت عظمیٰ سے سبک دوش کرنے کے عوامل کیا تھے اور ہیں لیکن جو کچھ زمینی حقائق ہیں وہ سب کے سامنے ہیں ممکن ہے میاں صاحب کے تحفظات میں کچھ جان ہو لیکن یہاں بھی ہم یہی کہہ سکتے ہیں: نا ممکن ہے کہ یہ گتھی سلجھ جائے بڑی محنت سے اہل دانش نے الجھائی ہے ۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس سارے کھیل کے پیچھے کوئی بین الاقوامی سازش ہے لیکن اگر میاں صاحب برضا و رغبت پہلے ہی حملے میں سرنڈر کر جاتے اور بظاہر اپنے مخالفین کے مشورے پر عمل کر لیتے کہ میاں صاحب جلدی کریں اور استعفا دے کر ایک طرف ہو جائیں مگر میاں صاحب نے اس کو اپنی بے عزتی سے تعبیر کیا۔مگر وہ جو کہتے ہیں نا کہ نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہوتا ہے لیکن میاں صاحب حالات کا ادراک کرنے میں ناکام رہے، جس کا بھگتان ان کو بھگتنا پڑا پھر انہوں نے ایک فیصلہ اپنے نادان دوستوں کے مشوروں سے کیا حالاں کہ وہ ان کے دوست کم اور اپنے مفاد کے اسیر زیادہ تھے کہ خم ٹھونک کر عدالت کے سامنے جا کھڑے ہوئے حالاں کہ جے آئی ٹی کی تشکیل تک ان کے پاس موقع تھا کہ پلٹ جاتے کیوں کہ اس وقت تک عدالت عظمیٰ نے ان کو طلب نہیں کیا تھا اور خاموشی سے نکلنے کا موقع بھی فراہم کیا تھا مگر نادان دوستوں نے ان کی حمایت کی آڑ میں جس طرح ان کو پہاڑ سے ٹکرانے پر مجبور کیا کہ ہم لوہے کے چنے ہیں جو چبانے کی کوشش کرے گا دانت ٹوٹ جائیں گے لیکن ابھی تو ایک پتا بھی نہیں ٹوٹا پھر کوئی کہہ رہا تھا کہ فیصلہ دو ٹوک اور صاف ہونا چاہیے If اور But کا فیصلہ نہیں ہونا چاہیے ایسا تو عرض فلک نے پہلے کبھی نہیں دیکھا کہ کوئی چیلہ اس طرح معتبر ترین عدلیہ کو للکار رہا ہو کوئی کہہ رہا تھا کہ میاں صاحب ایک کھلی کتاب ہیں اور اس کتاب کا ایک ایک صفحہ کھلا ہوا ہے اگر کسی کو پڑھنا نہیں آ رہا یا سمجھ میں نہیں آ رہا تو یہ ہمارا قصور نہیں۔ ان عاقبت نا اندیشوں نے میاں صاحب کی کتاب کے ایسے ایسے صفحے کھلوا دیے جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھے۔ میاں صاحب تو کجا ان کی آل اولاد کی کتابوں کے صفحے بھی پوری طرح کھلوا دیے جو آج ریکارڈ کا حصہ ہیں تو کل تاریخ کا حصہ بننے والے ہیں۔ اب دیکھ لیں شاطروں نے اپنی چالوں سے اپنی اپنی وزارتیں بھی پکی کر لیں اور آپ کو گھر بھیج دیا اب وزیر اعظم ہاؤس تک رسائی کا صرف ایک ہی راستہ رہ گیا ہے اور وہ یہ ہے محترمہ کلثوم نواز صاحبہ کے ۱۲۰ کے حلقے سے جیتنے کی صورت میں اور ان کو وزارت عظمیٰ کے عہدے پر براجمان کروا کر مرد اول کی حیثیت سے ہی وزیر اعظم ہاؤس میں قیام کا رقہ ہاتھ آسکتا ہے۔