ایک نئی سیاسی جماعت کا ظہور

179

zc_MFپاکستان میں فی الوقت 345 سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ ہیں، ان میں سے بیش تر وہ ہیں جن کے نام سے بھی عوام واقف نہیں لیکن انہوں نے الیکشن کمیشن کی کاغذی شرائط پوری کرکے خود کو رجسٹر کرالیا ہے اور اب وہ ملک میں اپنا قانونی وجود رکھتی ہیں۔ وہ ملک کے انتخابات میں بھی حصہ لینے کی مجاز ہیں اور معمول کی سیاسی سرگرمیاں بھی جاری رکھ سکتی ہیں لیکن عملی وجود نہ ہونے کے سبب وہ برسرزمین نظر نہیں آتیں۔ ملک میں تذکرہ ہے تو صرف چند بڑی سیاسی جماعتوں کا۔ ساری سیاست ان جماعتوں کے گرد گھوم رہی ہے۔ ابھی چند سال پہلے تک ملک میں دو جماعتی سیاسی نظام کی وکالت زوروں پر تھی اور کہا جارہا تھا کہ امریکا کی طرح پاکستان میں بھی دو سیاسی جماعتوں کی سرپرستی کرکے ملک کے سیاسی نظام کو مستحکم بنایا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ پروپیگنڈا اس لیے بے اثر ثابت ہوا کہ عوام کو بہت جلد پتا چل گیا کہ دونوں جماعتیں قومی وسائل کی لوٹ مار میں مصروف ہیں اور نام نہاد ’’میثاق جمہوریت‘‘ کے ذریعے ایک دوسرے کو موقع فراہم کررہی ہیں۔ پاناما لیکس نے تو اس جماعت کے چہرے سے بالکل ہی نقاب اُلٹ دیا جسے دو برائیوں میں سے کم تر برائی سمجھا جارہا تھا۔



یہ ہے وہ سیاسی منظرنامہ جس میں ایک نئی سیاسی جماعت ملی مسلم لیگ کا ظہور عمل میں آیا ہے۔ یہ جماعت در حقیقت حافظ محمد سعید صاحب کی دینی تنظیم جماعۃ الدعوہ کا سیاسی ایڈیشن ہے۔ حافظ صاحب اِن دنوں بھارت اور امریکا کے دباؤ پر نظر بند ہیں۔ ان کی نظر بندی کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل زیر سماعت ہے۔ عدالت نے حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے کہ وہ حافظ محمد سعید کی نظر بندی کی وجوہ سے عدالت کو آگاہ کرے لیکن وہ کوئی معقول وجہ عدالت میں پیش کرنے سے قاصر رہی۔ کیس کی سماعت ملتوی ہوگئی اور حکومت نے حافظ صاحب کی نظربندی میں مزید توسیع کردی ان کی تنظیم جماعۃ الدعوہ بھی پابندیوں کی زد میں ہے کہ بھارت اور امریکا اسے ایک دہشت گرد جماعت سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں اس جماعت پر دہشت گردی کا کوئی الزام نہیں ہے، پاکستانی عدالتیں اسے کلیئر کرچکی ہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان میں امریکا (بھارت کو بھی اس میں شامل سمجھیے) کا کہا مستند مانا جاتا ہے، اس لیے عدالتی کلیئرنس کے باوجود سرکاری طور پر جماعۃ الدعوہ زیر عتاب ہے اسے کسی قسم کی مذہبی و فلاحی سرگرمی کی بھی اجازت نہیں۔ یہ ہیں وہ حالات جن میں حافظ صاحب کے رفقا نے ایک نئی سیاسی جماعت قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس جماعت کا نام ملی مسلم لیگ رکھا گیا ہے۔ سیف اللہ خالد اس کے صدر اور مزمل ہاشمی اس کے نائب صدر ہوں گے، دیگر عہدیداروں کے ناموں کا اعلان بھی عنقریب کردیا جائے گا۔ الیکشن کمیشن میں ضروری دستاویزات کے ساتھ رجسٹریشن کی درخواست دے دی گئی ہے تا ہم الیکشن کمیشن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ فی الحال درخواست کا جائزہ لے رہا ہے اگر درخواست تمام ضروری شرائط پر پوری اُتری تب ہی اس کی رجسٹریشن ممکن ہوسکے۔ خیال ہے کہ اگر الیکشن کمیشن کو کسی بیرونی دباؤ کا سامنا نہ ہوا اور مقتدر حلقوں نے گرین سگنل دے دیا تو الیکشن کمیشن میں اس کی رجسٹریشن ممکن ہوجائے گی۔ اس طرح ملی مسلم لیگ نام کے اعتبار سے چوبیسویں مسلم لیگ ہوگی جس کا الیکشن کمیشن میں اندراج کیا جائے گا۔ بیش تر مسلم لیگیں کاغذی نوعیت کی ہیں لیکن ملی مسلم لیگ ان سب میں منفرد اور فعال کردار کی حامل ہوگی۔ اس کے پاس پہلے سے کارکنوں کی ایک سرگرم کھیپ موجود ہے جو سیاسی محاذ پر اہم کارکردگی دکھا سکتی ہے۔



ملی مسلم لیگ کے قیام کا پاکستانی ذرائع ابلاغ نے کوئی خاص نوٹس نہیں لیا لیکن بھارتی میڈیا میں ایک کہرام برپا ہے، وہ بھارتی عوام کو باور کرانے میں مصروف ہے کہ حافظ محمد سعید اب سیاست میں حصہ لے کر پاکستان کے اقتدار پر قابض ہونا چاہتے ہیں اس طرح پاکستان میں شدت پسندی کو فروغ حاصل ہوگا اور مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی مشکلات بڑھ جائیں گی کیوں کہ حافظ سعید کشمیریوں کی مسلح جدوجہد آزادی کے پرجوش حامی اور سپورٹر ہیں اور ماضی میں ان کی جہادی تنظیم مقبوضہ کشمیر کے جہاد میں بھرپور حصہ لیتی رہی ہے۔ جب کہ بھارت اب بھی یہ سمجھتا ہے کہ حافظ صاحب کی تنظیم مقبوضہ علاقے میں بدستور مصروف جہاد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کی نظر میں حافظ صاحب کا وجود کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے، اس نے اپنے دوست نواز شریف پر دباؤ ڈال کر حافظ صاحب کی نظر بندی کو ممکن بنایا تھا۔ یہاں یہ تذکرہ بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ میاں نواز شریف کے خلاف عدالتی فیصلے پر سب سے زیادہ دکھ بھارت کو پہنچا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ نواز شریف کی نااہلی کے نتیجے میں وہ پاکستان میں اپنے مخلص دوست اور ایک بھارت نواز حکومت سے محروم ہوگیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ملی مسلم لیگ کا قیام اس کے لیے ایک اور جھٹکا ثابت ہوا ہے اسے اندیشہ ہے کہ اس طرح مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جدوجہد مزید زور پکڑ جائے گی۔



ملی مسلم لیگ کے رہنماؤں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ ملک میں مذہبی جماعتوں کے ایک وسیع تر سیاسی اتحاد کو ممکن بنانے کی کوشش کریں گے۔ یہ اتحاد سیکولر اور نام نہاد لبرل قوتوں کے مقابلے میں ملک کی ضرورت بھی ہے۔ نواز شریف کی نااہلی کے بعد آئین میں موجود منتخب نمائندوں کے لیے امین و صادق ہونے کی شرط (62اور 63) ساقط کرنے کی باتیں ہونے لگی ہیں، مذہبی قوتیں متحد نہ ہوئیں اور پارلیمنٹ میں ان کی موثر نمائندگی نہ ہوئی تو کسی مرحلے پر بھی یہ کام ہوسکتا ہے۔ ملک میں میڈیا کے ذریعے جس بڑے پیمانے پر بھارتی کلچر کو فروغ دیا جارہا ہے اس کا تدارک بھی مذہبی قوتوں کے اتحاد سے ہی ممکن ہے۔